
بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحانہ تیاریاں، پاکستان چوکنا رہے!
شیئر کریں
بھارت کا جنگی جنون بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت پہلگام واقعے میں پاکستان کے خلاف شواہد نہ ہونے کے باوجود حملے کا ماحول بنا رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ‘‘ ایسا لگتا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملے کے لیے اپنا کیس بنا رہا ہے ، کیونکہ غیر ملکی سفارت کاروں کے مطابق بھارت پہلگام حملے پر پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے 100غیر ملکی سفارت کاروں کو وزارت خارجہ بلاکر بریفنگ دی، پہلگام واقعے کے ذمہ داروں کی شناخت کے ڈیٹا سمیت تکنیکی انٹیلی جنس کے بارے میں مختصر طور پر آگاہ کیا گیا۔بریفنگ میں شریک سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس بریفنگ میں بھارت واقعے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
اس بریفنگ سے آگاہ 4 سفارت کاروں نے بتایا کہ نئی دہلی بظاہر اپنے ہمسایہ اور روایتی دشمن کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے کیس بنا رہا ہے ، تاہم اس کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ پہلگام حملے میں پاکستان ملوث ہے ۔ اندرونی خلفشار سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت نے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دی ہیں، پہلگام واقعے کے فورا بعد بھارت نے پاکستان پر الزام دھر دیا، مودی نے پاکستان کیخلاف اقدامات میں مدد اور تعاون مانگنے کے لیے درجنوں ملکی سربراہان سے رابطہ کیا’’۔امریکی اخبار کی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ‘‘ بھارت عالمی برادری میں کشیدگی کم کرنے کے بجائے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز تیار کر رہا ہے ، مودی نے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا، اور شدید ردعمل کی بھی دھمکی دی’’۔
بھارتی وزارت خارجہ میں سفارت کاروں کو بریفنگ میں، بھارتی حکام نے بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرنے پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا۔بھارتی تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کے مطابق بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ، بھارت نے 1960کے سندھ طاس انڈس معاہدے کو معطل کر دیا۔ یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ مودی کی جنگی جنون میں مبتلا سرکار نے پہلگام حملے کے حوالے سے اب تک پاکستان کیخلاف کوئی عوامی ثبوت پیش نہیں کیااور اب مختلف ممالک کے سفارت کاروں کو دی گئی بریفنگ سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت سفارت کاروں کی بریفنگ میں بھی نہیں رکھا گیا۔ دلچسپ طور پر یہ مطالبہ صرف سفارت کاروں کا نہیں کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنا چاہئے بلکہ یہ خود بھارت کے اندر سے بھی اب مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ بھارت کوئی ثبوت پیش کرے۔ افسوس ناک طور پر بھارت میں سوشل میڈیا پر ایسے سوال اُٹھانے والے گرفتار ہو رہے ہیں۔
اس کے باوجود بھارت کی طرف سے مسلسل سزا دینے اور دہشت گردی کے ایسے سرحد پار تانوں بانوں کا ذکر مسلسل جاری ہے جس کا اشارہ اور ہدف براہِ راست پاکستان ہے۔دوسری طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیریوں کے خلاف اپنے کریک ڈاؤن کو تیز کیا ہے۔ بھارت میں مسلم مخالف جذبات بھی شدت اختیار کر چکے ہیں، بھارت میں کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بے دخل بھی کیا جا رہا ہے۔
پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے پاکستان کے خلاف اقدامات اور پاکستان کی جانب سے جوابی علامتی اقدامات کے باوجود یہ معاملہ اب تھمنے میں نہیں آرہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے24؍اپریل کو بہار میں ایک تقریر کے دوران واضح طور پر پاکستان کے خلاف کارروائی کا اشارہ دیا ہے۔ اُن کے اپنے الفاظ میں‘‘ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا دنیا کے آخری کونے تک پیچھا کریں گے’’ ۔
نریندری مودی کے ان الفاظ میں‘‘ فوجی کارروائی’’ کا اشارہ پوری طرح موجود ہے۔ روایتی فوجی کارروائیوں کے علاوہ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے خلاف سائبر حملے اور غیرمتناسب کارروائیاں دیگر کارروائیوں کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔ کچھ حلقے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحدوں پر بھاری ہتھیار تعینات کیے جاچکے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کو اندرونی محاذپر سیاسی یکجہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ پوری قوم کی جانب سے ہم آہنگی کے ساتھ دیاجا سکے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت پاکستان بدترین طور پر سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہے اور عملاً پاکستان کی غیر نمائندہ موجودہ حکومت کے لیے بھارت سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ پاکستان کے مقبول ترین اسیر رہنما عمران خان ہیں۔ پاکستان کو اس مسئلے کو فوری طور پر کسی مفاہمانہ راستے پر ڈالنا چاہئے تاکہ وہ مخالفت جو ہزاروں مقدمات ، ہزاروں گرفتاریاں اور جبرِ مسلسل کے باوجود ختم نہیں کی جاسکی ، اُسے ایک مفاہمانہ راستے سے ختم کیا جا سکے۔ اس کے بغیر دوسری طرف بھی یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کو اس لیے نظرانداز کیا جا رہا ہے کیونکہ اُنہیں سیاسی طور پر پوری طرح کنارے پر دھکیلنے والی قوت کے لیے اُن کے دلوں میں کوئی ہمدردی کی جوت نہیں جاگ رہی۔ بہرحال یہ نہایت ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ازلی دشمن کے خطرے کے باعث اندرونی طور پر اپنی صفوں کو منظم اور یکسو بنائے۔
یاد رکھیں کہ بھارت کا جنگی جنون کسی بھی فوجی کارروائی کے خطرے کو مکمل بیدار کر چکا ہے۔یہ کوئی انوکھی فضا نہیں ہے گزشتہ پچیس برسوں میں دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان پانچ بڑے بحران پیدا ہو چکے ہیں اور ایک کے بعد ایک بحران میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات مزید پیچیدگیوں اور کارروائیوں کے خطرات مزید تیزیوں کے ساتھ نمودار ہوتے رہے ہیں۔
2001میں انڈین پارلیمنٹ اور 2008میں ممبئی حملے نے دونوں ممالک کو جنگ کے قریب پہنچا دیا تھا۔ جبکہ2016میں اڑی حملے اور 2019میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے اندر ‘سرجیکل سٹرائیک’ کی مذموم روش اختیار کی تھی۔ بھارت موجودہ عالمی فضا میں اسرائیل کی روش پر چلتے ہوئے اپنے تئیں‘‘سزا’’ دینے میں خود کو غیر جوابدہ سمجھ سکتا ہے۔ مگر پاکستان ظاہر ہے کہ فلسطین نہیں ہے۔ اس لیے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرات کی یہ سطح زیادہ سنگین ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف لاپروا نریندر مودی ہے جو اپنے ملک میں مسلسل جنگی جنون کو ہوا دے کر خود انتہا پسند ہندوؤں کو اندرون ملک مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر اُکسا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت ایک انتہا پسند ریاست کے طور پر جارحیت کے امکان کو دنیا کے سامنے فروغ دے رہا ہے۔ جیسا کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ نشاندہی کرتی ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کی جنگوں، لڑائیوں اور بحرانوں کی تاریخ میں موجودہ عالمی فضا ماحول کو زیادہ خطرناک بنا رہی ہے۔ ایک طرف امریکا ہے جس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیاکو تجارتی بلیک میلنگ سے کھڈیر رہے ہیں اور پاکستان بھارت تنازع پر کہہ رہے ہیں کہ ‘‘یہ برسوں پرانے مسئلے ہیں دونوں ممالک آپس میں حل کر لیں گے’’۔
امریکا کے علاوہ بھارت نے آج تک کسی اور کا دباؤ قبول نہیں کیا۔ اور دنیا عالمی مسائل کے حل میں عالمی اداروں کی کم ہوتی اثر پزیری کامشاہدہ اپنی آنکھوں سے فلسطین میں کر رہی ہے۔ ایسے میں اکا دکا آوازیں ایران اور سعودی عرب کی سنائی دی ہے ۔ جس کا اثر دونوں ہی ممالک پر کچھ زیادہ اس وقت نہیں پڑے گا۔یوں غیر روایتی سائبر لڑائیوں سے لے کر سرجیکل اسٹرائیک اور محدود جنگ کے خدشات دونوں ممالک میں بہت تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ خدشات 2019ء سے زیادہ بھیانک رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اگرجہ 2019ء کا بحران تیسرے فریق کی مدد حل ہوا تھا۔مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پاکستان بھارت کا موجودہ بحران کیا کروٹ لے گا اور اس میں تیسرا فریق کون ہوگا؟
عالمی سطح پر بدلتے منظرنامے اور جنگوں کے لیے فروغ پزیر فضاء میں یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان فوری طور پر دنیا کو موجود بحران کی حساسیت کی طرف متوجہ کرے جہاں دو ایٹمی ممالک کے اندر پچیس برسوں کے پانچ بڑے بحرانوں کی تاریخ میں محدود جنگ کے خطرات سمیت نامتباسب کارروائیوں کے سائے مسلسل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔اور یوں 1.7ارب انسانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔