میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تیسری جنگ عظیم کے خطرات!!

تیسری جنگ عظیم کے خطرات!!

ویب ڈیسک
منگل, ۴ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے

 

شاید آپ کو ایک یہ بات عجیب لگے لیکن سرد جنگ کے دوران کرہ ارض پر امریکہ اور روس کے بعد تیسری بڑی ایٹمی طاقت برطانیہ، فرانس یا چین نہیں بلکہ یوکرین تھا۔ 1991میں سوویت یونین یو ایس ایس آر کے خاتمے کے ساتھ نو آزاد ملک یوکرین کو وراثت میں تقریباً تین ہزار جوہری ہتھیار ملے تھے جو ماسکونے اس کی سرزمین پر چھوڑے تھے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یوکرین ایک ایسے نازک دور سے گزر رہا ہے ۔پیوٹن کی جانب سے نیٹو میں شامل ملکوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ مداخلت پر ایٹمی جوہری فورسز کو چوکس رہنے کے حکم کے بعد جوہری جنگ کے خطرے پر ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی لیکن گزشتہ دہائیوں میں یوکرین کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ دنیا کی ایک بڑی ایٹمی طاقت سے ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس پر اس کے ہمسایہ ملک نے حملہ کرنے کا خطرہ مول لیا ،یہ سوال ذہن میں پیدا ہونے کے علاوہ اور بھی کئی اہم سوالات جواب طلب ہیں ۔کیا جوہری ہتھیاروں کی یوکرین میں موجودگی موجودہ جنگ کو روک سکتی تھی؟ کیا موجودہ جنگ میں جوہری تصدم کا خطرہ ہے؟
1991میں یوکرین نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنی سلامتی اور تسلیم کیے جانے کی یقین دہانی کے بعد اپنی سرزمین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر رضامند ہوا تھا ۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بیٹا پیسٹ کی یادداشت کے تحت امریکہ برطانیہ یوکرین اور روس نے تمام نکات پرمتفقہ طور پر دستخط کیے تھے۔ ہنگری کے دارالحکومت میں 1994میں دستخط شدہ اس دستاویز میں یوکرین نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی عالمی معاہدے پر دستخط کرنے اور ملک میں رہ جانے والے جوہری ہتھیاروں کو ماسکو کے حوالے کرنے کا یقین دلایا تھا۔ یوکرین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے بدلے میں روس امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے یوکرین کی آزادی خود مختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کرنے اور اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت سے باز رہنے کا یقین دلایا تھا۔ تصور کریں 1996 تک یوکرین نے اپنے ملک میں موجودہ سوویت دور کے تمام جوری ہتھیار وعدے کے مطابق روس کے حوالے کر دیے تھے لیکن المیہ یہ ہے کہ جن ممالک نے یوکرین کو اس کی سلامتی اور خود مختاری کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ،وہ اپنے وعدے پر قائم نہیں ہیں۔ آج یوکرین جس نہج پر کھڑا ہے ،اس کی ساری ذمہ داری ان ممالک پر جاتی ہے جن کی یقین دہانی پر یوکرین نے جوہری ہتھیار روس کے حوالے کیے تھے۔ ان بڑی طاقتوں کی بے رخی دیکھنی ہے تو یہ سنہری موقع ہے ۔یقینا یوکرین اپنی کی ہوئی غلطی پر افسردہ ہوگا گزشتہ سال زیلنسکی نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ یوکرین کو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے جوہری تھیاروں کو چھوڑنے کے بعد سیکیورٹی کی ضمانتیں ملی تھیں، ہمارے پاس اب ہتھیار نہیں ہیں لیکن ہمارے پاس سکیورٹی بھی نہیں ہے۔ 2014کے بعد سے یوکرین نے بیٹا پیسٹ یادداشت پر دستخط کرنے والے ممالک کے ساتھ مشاورت کرنے کی تین بار کوشش کی لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔حالانکہ معاہدے کے تحت یہ ممالک یوکرین کو تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہیں ۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو وہ اس بحران کا سامنا نہیں کرتا۔
28 فروری کا دن وائٹ ہاؤس میں امریکہ اور یوکرین کے بیچ تعلقات کے لیے انتہائی اہم تھا مگر دونوں ملکوں کے صدور کی ملاقات دیکھنے ہی دیکھتے تکرار میں بدل گئی ۔اصل حقیقت یہ ہے کہ کہ اس ملاقات کی ابتدا ہی میں جب یوکرینی صدرزیلنسکی ٹرمپ سے ملاقات کے لیے اوول آفس پہنچے تو وہ فوجی طرز کی سیاہ شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ اس پر یوکرین کا قومی نشان بھی بنا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ یوکرین پر روس کے 2022میں باقاعدہ حملے کے بعد سے زیلنسکی نے شرٹ۔ کورٹ پینٹ اور ٹائی پہننا ترک کر دیا ہے۔ وہ اب غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی اہم ملاقاتوں کے لیے بھی سوٹ نہیں پہنتے ،جیسے ہی زیلنسکی گاڑی سے اترے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ آج تو آپ بڑا تیار ہو کر آئے ہیں، یہ وہ طنز تھا جہاں سے اس ملاقات میں بدمزگی شروع ہوئی اور پھر اس کا اختتام پوری دنیا نے دیکھا ۔وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں اس سے پہلے اس نوعیت کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو ان کے ساتھ یہ رویہ نہیں اپنایا جاتا۔ جن طاقتوں نے یوکرین کو اس کے تحفظ اور سلامتی کا یقین دلایا تھا انہوں نے روس اور یوکرین کے جنگ کے موقع پر انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بحران عالمی سطح پر انتہائی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ فروری 2022میں یوکرین پرروس کے مکمل حملے کے بعد سے جنگی اور شہری نقصانات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔یوکرین کے صدرزیلنسکی نے فروری 2024 میں کہا تھا کہ 31000یوکرینی فوجی مارے گئے ہیں ،حالانکہ بیرونی اندازوں کے مطابق یہ تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔ 2024ء کے شروع میں یوکرین کے ایک خفیہ جائزے میں وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق یوکرائنی فوجیوں کے نقصانات کی تعداد 80,000ہلاک اور 400,000زخمی تھی، انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مطابق 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کے بعد سے روس کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ اندازوں کے مطابق 800,000 سے زیادہ روسی فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جس سے یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے روس کے لیے سب سے مہلک تنازعات میں سے ایک ہے۔ رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ روسی افواج نے اپنی جارحانہ کارروائیوں کو برقرار رکھنے کے لیے ناقص تربیت یافتہ بھرتی کرنے والوں اور مجرموں پر انحصار کیا ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں کی شرح غیر معمولی حد تک زیادہ ہے، ان نقصانات کے باوجود روس نے اپنے بڑے پیمانے پر حملے جاری رکھتے ہوئے خاص طور پر مشرقی یوکرین میں جبکہ وہ مناسب تربیت یافتہ اہلکاروں کے ساتھ اپنی صفوں کو بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ روس یوکرین جنگ فروری 2022میں اس وقت شروع ہوئی جب روس نے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا۔ اس تنازع میں اضافہ ہوا جو روس کے 2014میں کریمیا کے الحق کے بعد سے اہل رہا تھا ابتدائی طور پر روس نے تیزی سے قبضے کا ارادہ کیا لیکن یوکرائنی مزاحمت جسے مغربی ممالک کی بڑی فوجی امداد کی حمایت حاصل تھی ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگ ایک طویل اور گمبھیر تنازع میں تبدیل ہو گئی ہے جس میں دونوں فریقوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ روس نے مشرقی یوکرین کے کچھ اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ یوکرین نے ملے جلے نتائج کے ساتھ جوابی کارروائیاں کی ہیں ۔سفارتی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ روس اور یوکرین جنگ کے تنازع کے نتیجے میں امریکہ اور یورپی ممالک آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ امریکہ روس کی حمایت کرتا نظر آرہا ہے جبکہ یورپین ممالک یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس گمبھیر صورتحال کو اگر وقت پر حل نہ کیا گیا تو یہ بحران تیسری جنگ عظیم کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں