میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارتی کسانوں کے احتجاج میں شدت

بھارتی کسانوں کے احتجاج میں شدت

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۳ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

پنجاب اور ہریانہ کے کسان گزشتہ سال 13 فروری سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسانوں کی ایک تنظیم ‘سمیوکت کسان مورچہ’ (ایس کے ایم، غیر سیاسی) کے سربراہ جگجیت سنگھ ڈلیوال کھنوری میں گزشتہ سال 26 نومبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس درمیان بارہا ان کی صحت خراب ہوئی۔سپریم کورٹ نے ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کی تھی۔ اس نے ‘آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز’ (ایمس) کے ڈاکٹرز کی بھی ایک کمیٹی بنائی ہے۔ مرکزی حکومت نے کسانوں اور حکومت کے درمیان جاری تعطل کو دْور کرنے کے لیے کسان نمائندوں کو مذاکرات کے لیے 18 فروری کو مدعو کیا ہے۔حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ اس نے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زرعی اصلاحات کیں اور ان قوانین کو پارلیمان سے منظور کرایا تھا۔
بہت سے کسان مذاکرات کے حکومت کے اعلان کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست پنجاب کے وزیرِ زراعت گورمیت سنگھ نے کہا کہ ڈلیوال کی صحت انتہائی خراب ہے۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو اسے ایک یا دو روز کے اندر ہی مذاکرات کرنے چاہئیں۔کسانوں کی ایک تنظیم ‘جے کسان آندولن’ کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رمضان چودھری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کا سیاسی حربہ ہے۔ بقول ان کے حکومت نے دہلی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں منفی ووٹ پڑنے کے ڈر سے اعلان کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے احتجاجی کسانوں کو ان قوانین پر عملدرآمد معطل کرنے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ لیکن کسانوں کی جانب سے ان قوانین اور اصلاحات کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ کسانوں نے ان قوانین اور اصلاحات کی منسوخی تک اپنے ان احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کو جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ جبکہ حکومت نے جانب سے بارہا کسان تنظیموں کو ان اصلاحات پر بات چیت اور ان متنازعہ قوانین کے بارے میں وضاحت کی پیشکش کی جارہی ہے، تاکہ ان پر مرحلہ وار حل اور مذاکراتی نتائج کی روشنی پر ان پر عملدرآمد کے لئے مناسب وقت مانگنے کی درخواست کی جارہی ہے۔ وزارت زراعت کی طرف سے 40 کسان تنظیموں کو بھیجے گئے ایک خط میں اس تحریک اور پانچ دور کے مذاکرات پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ حکومت نے کسان تنظیموں کو زرعی قوانین میں ترمیم کرنے کی جو پیشکش کی تھی، اس خط میں ان کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ کسان تنظیموں کی جانب سے حکومت سے لگاتار زرعی اصلاحات کے تین قوانین کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب سے حکومت ان قوانین میں ترمیم کی تجویز پر تاحال ڈٹی ہوئی ہے۔
بھارتی ریاست پنجاب میں کسانوں نے نئی دہلی کے خلاف اپنے احتجاج میں شدت لائی ہے اور 111 کسانوں کے ایک گروپ نے گزشتہ بدھ کے روز تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔مزاحمت کی علامت کے طور پرکالے کپڑوں میں ملبوس کسان انصاف کے لیے اپنے مطالبات اورزیر التوا مسائل کے حل پر زور رہے ہیں جنہیں مرکز کی مودی حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ احتجاج میںپنجاب کے سکھ کسانوں کی جدوجہد کو اجاگرکیاجارہا ہے جنہیں بھارت کی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ یہ کسان جو طویل عرصے سے بھارتی حکومت کی بے حسی اور بربریت کا شکار ہیں ،اب بھوک ہڑتال پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی پرامن اپیلوں سے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بی جے پی حکومت ان کی حالت زار کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔احتجاج میں شدت پولیس کے مسلسل جبر اور بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آئی ہے جس کے بارے میں کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ سکھ برادری کو نقصان پہنچانا اور پنجاب کی ثقافتی شناخت کو مٹانا چاہتی ہے۔پنجاب کے کسانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیے جانے کے بعد ان کی جدوجہد بقاء کی جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ بھوک ہڑتال تادم مرگ مودی انتظامیہ کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انتہائی اقدام ہے، جس پر کسانوں کا الزام ہے کہ وہ بھارت کو جمہوریت سے آمریت میں تبدیل کر رہی ہے۔
کسانوں کی تنظیمیں اور حکومت کے مابین اب تک مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔کسانوں نے اپنے مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک تو اپنے تحفے میں دیے جانے والے قانون واپس لے۔ دوسرا یہ کہ جو کسانوں کی جانب سے مانگا جا رہا ہے وہ بلا مشروط طور پر کسانوں کو فراہم کر دیا جائے۔ یعنی کہ کسانوں کو ان کی کاشتہ فصلوں پر اس کا جائز قانونی حق کو برقرار رکھا جائے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اب تک کسانوں کے ان مطالبات کو منظور کرنے کی بجائے صرف اپنے منظور شدہ قانون یعنی ‘ایسنشل کموڈیٹیز ایکٹ 2020ء ‘ کی وضاحت ہی پیش کی جاتی رہی ہے، لیکن کسانوں کے چند واضح نکات ہیں کہ حکومتی قانون میں لکھا جائے کہ کسان کو اس کی طے کردہ کم سے کم رقم دی جائے گی، جو کہ لازمی ہوگا اور دونوں فریقین پر یکساں نافذ ہو گا۔
ریاست راجستھان میں کسانوں کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے صرف اپنے دو صنعتکار دوستوں کو نوازنے کیلئے زرعی قوانین متعارف کرائے ہیں۔ جن پر عملدرآمد کرنے سے 40 فیصدی لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔ اس وقت ملک کے اجناس کے کاروبار پر دو صنعتکاروں کی 40 فیصد اجارہ داری ہے۔ جبکہ نریندر مودی کی جانب سے جو تین نئے زرعی قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ جن میں سے پہلے قانون کے اطلاق سے ان دونوں صنعتکاروں کی اناج، پھل اور سبزیوں پر اجارہ داری 40 فیصد سے بڑھ کر 80 سے 90 فیصدی تک ہوجائے گی۔ مودی کے دوسرے قانون کے ذریعے بڑے صنعتکاروں کو ذخیرہ اندوزی کی اجازت مل جائے گی۔ جس کے باعث وہ ذرعی پیداوار کو ذخیرہ کرکے بعد میں انہی کسانوں کو مہنگے داموں فروخت کریں گے۔ تیسرے قانون کے لاگو ہونے پر کسانوں کے پاس عدالت میں جانے کا حق بھی ختم ہوجائے گا اور وہ اپنی فصل کی قیمت حاصل کرنے کیلئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکیں گے۔ راہول گاندھی کے مطابق ان زرعی قوانین کے نفاذ سے پہلے سے موجود تمام منڈیاں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گی۔ جس کے باعث کسان، سبزی فروش، ٹھیلوں اور پتھاروں والے افراد بیروزگار ہوجائیں گے، مجموعی طور پر ان قوانین سے 40 فیصد لوگ بیروزگار ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں