کرم میں امن بحال کرنے کی کوششیں
شیئر کریں
حکومت خیبر پختونخوا نے ضلع کرم ایجنسی کے علاقے لوئر کرم میں امن معاہدے پر دستخط کرنے والے مشران کو کہا ہے کہ وہ حملے کے مجرم حکومت کے حوالے کریں بصورت دیگر سخت کارروائی کی جائے گی اور ہر قسم کا معاوضہ اور امداد روک دی جائے گی۔مشیراطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹرسیف نے واضح کیا ہے کہ گرینڈ جرگے کے معاہدے کے مطابق کُرم میں ہرحال میں امن یقینی بنایاجائے گا اور امن دشمنوں سے ہرحال میں آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ڈان نیوز کے مطابق مشیراطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے کہاکہ ڈپٹی کمشنر کُرم پرحملہ امن کو سبوتاژ کرنیکی مذموم سازش تھی، کُرم کے عوام امن دشمن عناصر سے ہوشیار رہیں اور علاقے میں پائیدار امن کیلیے انتظامیہ اور حکومت کیساتھ تعاون کریں۔بیرسٹرسیف نے بتایاکہ وزیراعلیٰ نے فائرنگ کے واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے کہاکہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر قافلے کو وقتی طور پر روک دیا گیا ہے، کلیئرنس ملنے کے بعد عنقریب قافلے کو روانہ کیا جائیگا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز خیبرپختونخوا (کے پی) کے اعلیٰ حکام نے بگن واقعے پر کرم امن معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمہ دار علاقے کو لوگوں کو قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے سروں کی قیمت مقرر کرکے کوئی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت رات گئے صوبائی حکومت کے اعلیٰ حکام کے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن معاہدے کے بعد علاقے کے لوگ معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں اورفائرنگ کے واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے حوالے کیا جائے اور تمام ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے اُنہیں فوری گرفتار کیا جائے۔صوبائی حکام نے فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردوں کی سروں کی قیمت مقرر کرکے اُن کا قلع قمع کیا جائے، کسی دہشت گرد سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور نہ اُن کی معاونت کرنے والوں کو چھوڑا جائے گا۔خیال رہے کہ گزشتہ روز بگن میں فائرنگ سے ڈپٹی کمشنرسمیت 6 افراد زخمی ہوئے، زخمیوں میں 3 راہ گیر، ایک ایف سی اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔
پاکستان کو دہشت گردی کا جو سنگین چیلنج درپیش ہے، اس کے تناظر میں حکومت خیبر پختونخواہ کی جانب سے قانون شکنوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کا اعلان وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے ،کرم میں بار بار دہشت گردی کی وارداتوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس فتنہ انگیزی کی پشت پر کارفرما ہاتھوں کو توڑے بغیر علاقے کے پرامن لوگوں کو سکون نہیں مل سکے گا اس صورت حال کی سنگینی کے پیش نظراس کی فتنہ انگیزوں کی بیخ کنی کیلئے وفاق اور صوبوں کو مشترکہ اور یکساں پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان
کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پہلے ہی یہ واضح کردیاہے کہ فتنہ الخوارج کے مکمل خاتمہ کا وقت آچکا ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سب مل کر اس فتنے کا خاتمہ کریں گے۔ ان کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ خود بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اس فتنے کی بیخ کنی کیلئے وفاق، صوبوں اوردفاعی اداروں کو مل کر مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔معاملات کی نزاکت کے پیش نظر اس حوالے سے ایک متحرک اور فعال میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یقیناً پاکستان کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ فورس کی کوئی کمی ہے۔ اگر میکنزم فول پروف ہو، سسٹم فعال ہو اور ارادے پختہ ہوں تو دہشت گردی کا خاتمہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
بگن کے واقعہ سے یہ حقیقت اب واضع ہوچکی ہے کہ دہشت گرد گروہ اور ان کے سہولت کار مذاکرات کی زبان سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے آئین و قانون کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیے بغیر امن کا قیام ممکن نہین ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے نیشنل ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران ٹھیک ہی کہا ہے کہ سوشل میڈیا پرپاکستان کے خلاف جو زہر اگلا جارہا ہے اسے روکنا ہوگا۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں واضع کیا کہ پاکستان کے خلاف جو سازشیں کی جارہی ہیں، ان میں ملوث عناصرکا پوری طرح علم ہے،جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی وہ بہت بڑی بھول میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل محاذ پر پاکستان سے باہر بیٹھے دوست نما دشمن اور ایجنٹ جو زہر اگل رہے ہیں اورجس طرح وہ پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں، یہ بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے، جھوٹ اورحقائق کومسخ کرکے پاکستان کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے۔سوشل میڈیا اور ڈیجٹل میڈیا پلیٹ فارمز اور تھریڈز کے ذریعے اینٹی پاکستان عناصر اور گروہ عرصے سے زہریلا پراپگینڈا کررہے ہیں، ایسے عناصر میں بعض ایسے نام بھی شامل ہیں جو پاکستان کے باعث خوشحال ہوئے،انھوں نے اچھے عہدے حاصل کیے اور پھر اپنے خاندانوں کو اچھے مستقبل کے بیرون ملک بھیجا، ان لوگوں پر پاکستان کے قومی خزانے سے کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن اب وہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔ پاکستان کی صوبائی اکائیوں کی من پسند اور جھوٹ پر مبنی تاریخ بیان کررہے ہیں۔ ایسے عناصر کا احتساب ضروری ہوچکا ہے۔ ا س طرح کی جھوٹی مہم اور پراپیگنڈہ کا توڑ نہ کیا گیا تو تمام کاوشیں رائیگاں جائیں گی۔ انھوں نے واضع کیا کہ اس حوالے سے وفاق اقدامات کررہا ہے اورصوبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ ہم مل کراس فتنے کا خاتمہ کریں گے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والا ایک مخصوص گروہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا ٹولز کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ لوگ امریکہ اور یورپی ممالک کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور ان ممالک کے اہم افراد سے مل کر انھیں پاکستان کے بارے میں گمراہ کن معلومات فراہم کرکے انھیں پاکستان کی حکومت پر دباؤ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا میں خارجی گھس بیٹھئے امن کے دشمن ہیں۔انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں بُنی جارہی ہیں، ان میں ملوث خارجی ہاتھ کا پوری طرح سے علم ہے کہ کہاں کہاں سے ان کوسپورٹ مل رہی ہے لیکن یہ بتانے سے گریز کیا کہ سازشیں کرنے والے عناصر کون ہیں اور حکومت کو ان کا علم ہونے کے باوجودبلوچستان میں اتحادی حکومت ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی کارروائی سے کیوں گریزکیاجارہاہے۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ لوئر کرم کے علاقے بگن میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود پر حملہ کرنے والے مجرمان کو ہر صورت میں انجام تک پہنچانا حکومت اور سیکیورٹی اداروں کا فرض ہے۔ابتدائی میڈیا اطلاعات میں سرکاری ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گاڑیوں کا قافلہ روانہ ہونے سے پہلے لوئر کرم میں ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ کی گئی ہے، صبح 10 بج کر 35 منٹ پر قافلہ روانہ ہونے سے قبل مذاکراتی ٹیم سڑک کھلوانے کے لیے مذاکرات کر رہی تھی، تقریباً 40 سے 50 مسلح شرپسندوں اور دہشت گردوں نے ڈپٹی کمشنر اور سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کی۔سوال یہ ہے کہ اتنی تعداد میں مسلح دہشت گرد کھلے عام
کیسے سرکاری گاڑیوں پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ امن کمیٹیوں کی گارنٹی اور سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود فائرنگ کا ہونا
تشویش ناک ہے۔اس کا واضع مطلب ہے کہ یہ معاملہ جرگوں اور پنچایتوں سے حل ہونے والا نہیں ہے لہٰذا اس علاقے کے وہ معززین جو جرگوں اور پنچایتوں میں شریک ہوئے، انھیں حقائق سے پردہ اٹھانا چاہیے،اور یہ واضح کرنا چاہئے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو نہ ان کے قابو میں آرہے ہیں اور نہ سیکورٹی فورسز ان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں، یہاں معاملہ کسی صوبے یا قبیلے کا نہیں ہے بلکہ معاملہ پاکستان کی سالمیت، اقتدار اعلیٰ کے تحفظ اور حکومت کی رٹ کا ہے۔مقامی اشرافیہ کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اگر ان شرپسند وں کے خلاف متحد نہ ہوئے تو نقصان ان کا اپنا ہو گا، ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام چھپے امن دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے خلاف کھڑے ہوں،اور ایسی کارروائیاں جاری رہنے کی صورت میں ادارے پوری قوت سے حرکت میں آ کر ایکشن لیں ۔ اطلاعات کے مطابق امن معاہدے کے تحت ادویات اور اشیائے خور و نوش پر مشتمل پہلا قافلہ کرم کے لیے روانہ ہونا تھا، امن معاہدے کی ضمانت امن کمیٹیوں نے دی تھی۔ کمیٹیوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ امن خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی، اس حملے نے نہ صرف قافلے کو روک دیا بلکہ عوام کو مزید مشکلات سے دو چار بھی کر دیا ہے۔اب اس ملک کے ہر شخص کو سمجھ لیناچاہئے کہ پاکستان اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ پرامن شہریوں کی جان، ان کے کاروباراور آزادیوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔بات صرف ضلع کرم اور پارا چنار کی نہیں ہے اور نہ ہی خیبر پختونخوا یا بلوچستان کی ہے، مسئلہ پورے پاکستان کا ہے۔پاکستان کے کسی حصے میں امن وامان کی صورت حال خراب ہوتی ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لیے نچلی سطح سے لے کر چوٹی کی سطح تک آئینی و قانونی پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ان پلیٹ فارمز کا مکمل طور پر فعال اور متحرک ہونا ریاست اور حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے لازم ہے۔پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے جو غیرمعمولی ذہانت، زیرکی، معاملہ فمہی کے ساتھ ساتھ دوراندیشی اور سفارتی مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔پاکستان کو اپنی جغرافیائی حدود کے تحفظ کے لیے جارحانہ لیکن مدبرانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اندرونی دشمنوں کے خاتمے کے لیے متحرک اور فعال انتظامی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نظریاتی ابہام پیدا کرنے والی قوتوں کی پیدا کردہ کنفیوژن ختم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت کا رویہ، طرز سیاست اور نظریات سرد جنگ کے دور کی نفسیات کا شکار ہیں۔عالمی صف بندی میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں اور ریاستی بیانئے جس انداز میں ترتیب پا رہے ہیں، پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت ان سے نابلد نظر آتی ہے یا اس کے سیاسی و گروہی مفادات و تعصبات اس قدر ہیوی ہوگئے ہیں کہ وہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر بسنے والے عوام کے اجتماعی مفادات سے متصادم ہوگئے ہیں، اس لیے یہ طبقے اپنا انداز فکر اور طرز سیاست تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ انھیں عالمی صف بندی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔