شام میں ظلم کا خاتمہ
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقِ وسطیٰ میں ہلچل اور تبدیلیوں کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اور اس سلسلے میں اہم ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ چند روز پہلے شامی صدر بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار ختم ہوگیا۔ وہ دارالحکومت دمشق سے اپنے اہل خانہ سمیت فرار ہو کر روس پہنچ گئے۔ اسلامی تحریک کے مجاہدین نے دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد حمص جیل سے ساڑھے تین ہزار قیدی آزاد کروائے۔ دمشق کے قریب واقع جیل سے بھی ہزاروں قیدی رہا کر دیے گئے۔ ان میں بدنام زمانہ صیدیانا جیل سے بچوں اور خواتین کی رہائی کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔ مجاہدین سرکاری ٹی وی، ریڈیو اور وزارت دفاع کی عمارتوں میں داخل ہوگئے۔ سرکاری فوج کی جانب سے علاقہ چھوڑنے پر لوگوں نے دمشق کے مرکز میں واقع امیر چوک اور سڑکوں پر جشن منایا اور آزادی کے نعرے لگائے۔مجاہدین نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلے ہی خطاب میں تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شام سے بشار الاسد حکومت کے طویل دور کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ کرنے کے بعد نیا عہد شروع ہونے جا رہا ہے۔ شام کی تمام سرکاری، غیر سرکاری املاک اور تنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا۔ عوام اور سابق حکومت کے فوجی سرکاری اداروں سے دور رہیں۔ اقتدار کی پرامن منتقلی تک وزیراعظم محمد غازی الجلالی حکومتی اداروں کی سربراہی کریں گے۔
شام میں بشار الاسد اور اس سے پہلے اس کے والد حافظ الاسد نے اقتدار پر جس طرح اپنا قبضہ برقرار رکھا اس سے واضح طور پر یہ پتا چلتا تھا کہ انھوں نے اپنے ملک میں ظلم کا نظام قائم کر کے اکثریت کو دبایا ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ آمریت زیادہ وقت تک نہیں چل سکتی اور نہ فسطائی ہتھکنڈوں سے عوام کو دبایا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جہاں جہاں بھی بادشاہت موجود ہے ان ملکوں کے حکمران اپنے عوام کو مطمئن رکھ کر ہی بادشاہت قائم رکھ سکتے ہیں۔ جس طرح جنگ و جدل میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مخصوص قوتیں کرہ ارض کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ عالمی برادری کو اب خوابِ غفلت سے جاگنا چاہیے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں مسائل جس طرح بڑھ رہے ہیں اس پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
شام میں آنے والے انقلاب کے پس پردہ اسلامی تحریک والے ہیں۔بشار الاسد خاندان نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا تھا جو حضرت علی کو خدا مانتے ہیں۔ ان لوگوں نے عام مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے۔ ان کا جینا حرام کر رکھاتھا۔ شام میں آنے والے انقلاب کو غزہ کے مجاہدین حماس نے بھی تسلیم کیا اور ایران نے بھی اس کی حمایت کر دی ہے۔ ایران پہلے بشار الاسد کا ساتھ دے رہا تھا۔ روس بھی بشار الاسد کا بہت بڑا حامی تھا۔ انقلاب کے بعد روس بھی بے بس ہوگیا۔روس اور امریکہ کو افغانستان میں ذلت آمیز شکست ہو چکی ہے۔اس کے بعد امریکہ کی سپر طاقت کی حیثیت ختم ہوگئی۔ امریکہ نے پہلے ویتنام میں شکست کھائی پھر کوریا نے اسے ناکوں چنے چبوائے اب امریکہ اس قابل نہیں رہا کہ کسی ملک پر لشکر کشی کرسکے۔ روس بھی یوکرائن کی جنگ میں الجھا ہوا ہے اور وہ کہیں حملہ نہیں کر سکتا۔ حقیقت میںان دونوں ممالک کا سپر طاقت ہونے کا ہوا ختم ہوگیا ہے۔
افغانستان میں روس اور امریکہ کے قبضے کے بعد جہادیوں کے پاس کھلا علاقہ تھا۔ وہ بھاگ کرایران نکل جاتے یاپاکستان آجاتے۔ یوں وہ تازہ دم ہو کر ان ممالک کے خلاف جہاد کرتے رہے اور آخر کار کامیاب ہوئے۔ شام میں انقلاب آنے اور مسلمانوں کے برسراقتدار آنے کے بعد عام مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ امریکہ کی حاکمانہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان پر اب رعب نہیں جما سکتا۔ پہلے وہ بھارت کو چین کے خلاف تیار کر رھا تھا مگر اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ بھارت کو مالی و جنگی امداد دے سکے۔ امریکہ کے آئندہ کے صدر ٹرمپ نے بھی واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ امریکہ نہ تو جنگیں لڑے گا اور نہ ہی کسی جنگ میں حصہ لے گا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے پاس ایک نظریہ ہے ۔ان کی بین الاقوامی حیثیت ہے۔ وہ دوسروں کو اپنی بات سمجھا اور ان سے منوا سکتے ہیں۔ایران کاکہنا ہے کہ نہ شام نے ہم سے مددمانگی اور نہ ہی ہم نے دی۔ جو لوگ شام میں اقتدار میں آئے ہیں ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یوں اسرائیل کا گریٹر اسرائیل منصوبہ ناکام ہوگیا۔ بشار الاسد کو یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر غیرمسلموں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ تھا کہ اس خاندان کو برسراقتدار رکھ کر اسرائیل کی سرحدیں بڑھائی جائیں۔اسی لئے وہ دمشق پر بمباری کر رہا ہے کہ اسلامی فوجیں اس کا جواب دیں گی اور اسرائیل کے ساتھ جنگ میںالجھ جائیں گی۔
عرب ممالک میں اسلامی تحریک کا آغاز مصر سے ہوا مگر امریکہ اور اسرائیل نے سازش کر کے مصری صدر مرسی کو اقتدار سے اتار دیا اور بعد میں جیل میںشہید کر دیا۔ مرسی کے برسراقتدار آنے سے گریٹر اسرائیل منصوبہ ختم ہونے کا خدشہ پید ا ہوگیا تھا اسی لئے امریکہ اور اسرائیل نے مصر میں اسلامی تحریک کی حکومت ختم کی۔ لیکن اب یہ تحریک اپنے زوروں پر ہے۔ اسی تحریک نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا ہے۔ اسلامی ممالک میں اسلامی تحریکوں کا اثرو رسوخ بڑھے گا۔ جو عرب ریاستیں امریکہ کے تابع تھیں اوران کے حکمران سوچ کر بیٹھے تھے کہ امریکہ ان کو بچا لے گا۔ شام میںانقلاب سے ان کی بھی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ سینیٹر محترم طارق چودھری کا کہنا ہے یوں لگتا ہے کہ اب گریٹر اسرائیل کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ اور آئندہ تیس برسوں میں اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا۔ دوسری طرف بھارت افغانستان داعش اور دیگر غیر مسلم تنظیموں کو مالی امداد دے رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔
شام کے انقلاب سے پاکستان کے حالات پر بھی اثر پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میںآج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ شائد فوج کے تابع ہے۔فوج کو اپنے دائرہ کار میں رہنا چاہیے۔ ہرجگہ فوج کی مداخلت ناقابل برداشت ہے۔ یہ ایک قسم کامارشل لاء ہے۔شام کے حالات پر عرب ممالک کے وزرائے خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ کا اجلاس ہو رہا ہے۔