میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ترک صدر کی مسئلہ کشمیرپر مذاکرات کی تلقین

ترک صدر کی مسئلہ کشمیرپر مذاکرات کی تلقین

ویب ڈیسک
بدھ, ۳ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔ دو روزہ دورے پر بھارت پہنچنے والے ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت اور پاکستان رابطے قائم کریں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کو مستحکم کریں۔ترک صدر نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو نیک نیت دوست قرار دیتے ہوئے سراہا جن کے ساتھ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر کئی بار تبادلہ خیال کیا ہے۔بھارت پہنچنے کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے لیے مایوس کن صورتحال ہے جبکہ اسے حل کرکے عالمی امن کو کافی حد تک فروغ دیا جاسکتا ہے۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے طیب اردوان کے بیان کا ترجمہ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ: ’اگر ہم گہرائی میں جائیں اور قریب سے دیکھیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہورہے ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر ہمیں دکھی کردیتا ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ دونوں ملکوں کو بھی مایوس کرتا ہے اور اس پر قابو پاکر ہم عالمی امن کے قیام میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں‘۔ترک صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ’ 70 برس سے جاری یہ تنازع آنے والی نسلوں کو بھی نقصان پہنچائے گا، سات دہائیوں سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور مجھے یقین ہے کہ اسے حل کرکے دونوں ملکوں کو سکون حاصل ہوگا‘۔انہوں نے کہا کہ تنازعات کو طول دینا اور اسے مستقبل میں بھی ساتھ لے کر چلنا آئندہ نسلوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیوں کہ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ترکی کے دوست ہیں اور انہیں مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے جبکہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ملاقاتیں بھی ہونی چاہئیں۔قبل ازیں بھارت روانگی سے قبل انقرہ میں بھی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے جنوبی ایشیا میں روایتی حریف اور جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے زور دیا تھا۔ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدر نے دورہ بھارت سے قبل انقرہ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا تھاکہ کشمیر کے تنازعے کو طول دینا آئندہ نسلوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔اس موقع پر ترکی کے صدر نے کرد عسکریت پسند گروپوں اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان کسی بھی قسم کی مماثلت کو مکمل طور پر مسترد کیا۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان 70 سالہ دیرینہ تنازعے کے حل سے ان کے عوام کو ریلیف ملے گا اور خطے میں امن قائم ہوگا۔کیا ترکی نئی دہلی کے نیوکلیئر سپلائر گروپ میں داخل ہونے کی مخالفت کرے گا کے سوال پر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی ہمیشہ بھارت کے مذکورہ گروپ میں داخل ہونے کی حمایت کرتا رہا ہے اور اس بات کی بھی حمایت کرتا ہے کہ پاکستان کو بھی اسی طرح گروپ میں شمال کیا جائے۔انڈین ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدر طیب اردوان دو روزہ دورے پر بھارت آئے ہیں جہاں وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مقامی اور بین الاقوامی معاملات اور دوطرفہ باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کریں گے۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر کاتعلق ہے تو ترک صدر طیب اردوان نے بجاطورپر بھارتی صحافیوںپر یہ واضح کردیاہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں اور حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کی تحریکوں میں نمایاں فرق ہوتاہے، کشمیر ی عوام گزشتہ 70سال سے اپنے اس حق کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جس کی توثیق کرچکی بلکہ خود بھارت کے حکمراں بھی اقوام عالم کے سامنے اس کاوعدہ کرچکے ہیں۔
اب بھارتی حکمراں خود اپنے ہی سابقہ حکمرانوں کے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کاحق خود اختیاری دینے کے بجائے بزور طاقت انہیں کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے اس جائز حق کی حمایت کرنے پر پاکستان پر بھی جنگ کے بادل مسلط کررہے ہیں،مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مذاکرات سے بھارتی حکمرانوں کے گریز کی وجہ سے صورت حال کتنی سنگین ہوچکی ہے اس کااندازہ گزشتہ دنوں جاری کردہ امریکی تھنک ٹینک کی اس رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے پاس جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے باوجود خطے میں ایک اور جنگ کے ممکنہ امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات بھارت کی وجہ سے ہیں جو پاکستان میں سرجیکل اسٹرائکس کرنے کی حکمت عملی تیار کرچکا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک ‘بروکنگز انسٹیٹیوشن’ نے اپنے 15 ماہ طویل پروجیکٹ میں پاکستان، بھارت، چین اور امریکہ کو جوڑنے والی ‘اسٹریٹیجک چین’ (strategic chain) پر تحقیق کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان چاروں جوہری توانائی کے حامل ممالک کے درمیان حربی مصلحت کے پہلوو¿ں کو دو طرفہ بنیادوں پر سمجھنا یا مو¿ثر انداز میں بیان کرنا ممکن نہیں۔رپورٹ کے مطابق ‘ایک جانب جہاں پاکستان جنگی مصلحت کے تحت بھارت کو جواب دیتا ہے تو بھارت اس کے جواب میں پاکستان اور چین دونوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے جبکہ اس ردعمل کے جوابی ردعمل کا نشانہ امریکہ اور بھارت بنتے ہیں’۔46 صفحات پر مشتمل بروکنگز تھنک ٹینک کی یہ دستاویز پہلی بار جوہری معاملات پر پاکستانی نظریے کا احاطہ کرتی ہے۔
رپورٹ میںاس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح بھارت اور امریکہ اہم ترین جہتوں میں پاک چین تعاون پر تشویش کا اظہار رکھتے ہیں جبکہ پاکستان کو بھارت اور امریکہ کے تعاون پر کن خدشات کا سامنا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے سیکورٹی خطرات کی وجہ بھارت کو قرار دیتے ہوئے دیرینہمسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی اہم وجہ قرار دیا گیا ہے۔محقق کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاسی اشرافیہ اپنی معیشت میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ساتھ مستحکم فوجی قوت تیار کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ عالمی قوت بن کر خطے میں مزید طاقت سے ابھرا جاسکے۔مغرب کی حمایت رکھنے والی فوج سے لیس نئی دہلی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات اور پرامن قرارداد کے لیے تیار نہیں جبکہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہدمیں مصروف ہےں۔ایسے میں مستحکم اور بامعنی مذاکرات کی غیر موجودگی اور بھارت و امریکہ میں بڑھتا ہوادفاعی تعاون پاکستان کے لیے تشویش کی اہم وجہ ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کے پہلے جوہری تجربے کو 42 سال مکمل ہونے کے بعد بھی اسلام آباد کے مقابلے میں نئی دہلی کا دفاعی بجٹ 7 گنا زیادہ ہے، جبکہ بھارت کی دفاعی اور حربی صلاحیتوں میں ہونے والا اضافہ پاکستان کے خلاف تیاری ہے۔
تحقیق میں بھارتی ‘کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن’ پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے جبکہ بھارتی اسلحے میں ہونے والی اہم تبدیلیوں اور جدت کو کولڈ اسٹارٹ نظریے کا ایک ثبوت قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر دنیا اور جوہری عدم پھیلاو¿ کے معاہدے میں شامل ملکوں میں سے بھارت کے پاس سب سے قدیم، بڑا، تیزی سے پھیلتا ہوا اور غیر محفوظ جوہری پروگرام ہے۔بھارت کے اس دعوے کو کہ اس کے میزائل چین کے جانب سے ممکنہ خدشے سے نمٹنے کے لیے ہیں، مسترد کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے جدید، فعال میزائل نظام کو چین کے نسبت پاکستان کے خلاف زیادہ مو¿ثر انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہرہوتاہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے یہ خطہ کسی بھی وقت خطرناک ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، جس کی وجہ سے صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ خطے میں واقع دیگر تمام ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے لہٰذا اس صورت حال کے فوری تدارک کی ضرورت ہے اور ترک صدر کی جانب سے یہ مسئلہ حل کرانے کے لیے ثالثی کی پیشکش اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ بھارتی رہنما ترک صدر کی اس مخلصانہ پیشکش سے فائدہ اٹھانے اور یہ دیرینہ مسئلہ دیرپا بنیادوں پرحل کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں