میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوامی حمایت سے محروم بشارالاسد کی حکومت خطرے میں

عوامی حمایت سے محروم بشارالاسد کی حکومت خطرے میں

جرات ڈیسک
جمعرات, ۵ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

شام کے شہر حلب پر حکومت مخالف باغیوں کے اچانک قبضے نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے ۔حلب پر قبضہ ہوا تو اس حملے کی قیادت کرنے والے ایک باریش شخص کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس نے عسکری لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس شخص کا نام ابو محمد الجولانی ہے، جو حیئت تحریر الشام نامی گروپ کے سربراہ ہیں۔حلب پر قبضے کے بعد الجولانی کا نام ایک بار پھر سے بحث اور تنازعات کا مرکز بن چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس گروپ کی وہ سربراہی کر رہے ہیں، اس پر مغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور چند مسلم ممالک نے بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسے ‘دہشت گرد گروپ’ کا درجہ دیا گیا ہے۔ابو جولانی شمال مغربی شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف متحرک تحریک کے مرکزی رہنما ہیں اور حلب صوبے کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ جہا ں تقریبا 30 لاکھ ایسے لوگ آباد ہیں جو شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اسے حکومت مخالف تحریک کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔تاہم ایک ہفتہ قبل شروع ہونے والا اچانک حملہ ابو جولانی کی زندگی کا شاید اب تک کا سب سے ڈرامائی باب ہے جو شام کی خانہ جنگی کے سب سے پراسرار اور متنازع رہنما ہیں۔
شام کی دھماکہ خیز صورت حال اس سے کہیں زیادہ دھماکہ خیز ہے جتنی نظر آ رہی ہے یا جتنی دکھائی جا رہی ہے۔ حلب کوہئیت التحریر الشام نامی تنظیم نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور اب اس کے راستے شام کے چوتھے بڑے شہر ‘‘حما’’ تک پہنچ چکے ہیں چند دن پہلے حیئت التحریر یا انصارالاسلام نے غیر متوقع طور پر حملہ کیااور حلب کا ناقابلِ تسخیر دفاع 24 گھنٹے میں چکنا چور ہو گیا، شامی فوج کا حشر یہ ہوا کہ سیکڑوں مارے گئے سیکڑوں گرفتار کر لئے گئے اور ہزاروں فرار ہو گئے۔ صرف ڈیڑھ دن میں پورا حلب مزاحمت کاروں کے قبضے میں تھا۔ تاہم شدید روسی بمباری نے انہیں فی الوقت شہر میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اس صورتحال نے روس ایران، امریکہ کے علاوہ ترکی کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ ترکی حیات التحریر یا انصارالاسلام کی حمایت کرے یا نہ کرے ۔ حیات التحریر یا انصارالاسلام نے صرف حلب ہی نہیں اس کے اردگرد 25 میل کے علاقے میں موجود تمام چھوٹے شہر قصبے اور دیہات بھی قبضے میں لے لیے۔ شمالی شام میں شامی اور ایرانی افواج کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر بھی ان کے قبضے میں آ گیا اور بیسیوں جنگی ہیلی کاپٹر صحیح سلامت ان کے ہاتھ لگے۔ اس سے بھی اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ ادلیب کے جنوب سے لشکر نکلا اور آناً فاناً شام کے چوتھے بڑے شہر حما تک جا پہنچا۔ راستے میں واقع تمام شاہراہیں، قصبے اور چھوٹے شہر لشکر کے قبضے میں آ گئے اور شامی فوج اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ایران اور شام کی اپیل پر روسی فضائیہ حرکت میں آئی اور اب حما HAMA کے شمال میں اس کی زبردست بمباری نے مزاحمت کاروں کو حما میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق باغیوں کا لشکر اس وقت دمشق سے 204 کلومیٹر پر موجود ہے اور دمشق کے جنوب میں واقع اہم شہر سویدا میں بھی بغاوت شروع ہو گئی ہے۔
جہاں تک شام کا تعلق ہے تو دینی اعتبار سے پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے شام کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ یہ وہ شہر ہے رسول اللہ ؐنے جس کے لیے برکت کی دعا کی ہے۔ایک حدیث کے مطابق آپ ؐ نے فرمایا: شام اللہ کی چنیدہ زمین ہے اور اس میں اللہ کے بہترین بندے سکونت اختیار کریں گے،شام انبیا کرام جن میں سیدنا ابراہیم ؑ، سیدنا موسیٰ ؑ ، سیدنا عیسیٰؑ کا مسکن رہا ہے۔یہ خطہ قیامت کے قریب بہت اہمیٹ کا حامل ہوگا، کیونکہ کئی آخری زمانے کی علامات یہاں ظاہر ہوں گی، جیسے حضرت عیسیٰؑ کا نزول، دمشق کے مشرقی مینار پر ہوگا۔ شام کو جنت کی زمین کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک روحانی اور مبارک خطہ ہے جہاں ایمان اور خیر کی کثرت ہوگی۔شام کی فضیلت سے متعلق آیات و احادیث کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سرزمین کی محبت اور اس کی خیر خواہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اس طرح راسخ العقیدہ مسلمانوں کے نزدیک باغیوں کی موجودہ فتوحات اہلِ اسلام اور خصوصاً شام کے مظلوم مسلمانوں کے لیے خوشخبری کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اہلِ شام دہائیوں سے ظلم و ستم، جنگ و جدل اور آزمائشوں کے کٹھن مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان کے خاندان اجڑ گئے، مال و متاع لوٹ لیا گیا، اور بستیوں کو مٹی میں ملا دیا گیا، لیکن ان بہادر اور صابر مسلمانوں نے ان حالات میں بھی صبر و استقامت کی شاندار مثال قائم کی۔ گزشتہ 3-4دن کے اندر شامی انقلابیوں کے ایک حملے نے حکومتی افواج کو جواس ملک کے شمال میں درجنوں قصبوں، حتیٰ کہ شام کے دوسرے بڑے شہر حلب سے بھی پیچھے دھکیل دیا حکومتی افواج منتشر ہوتی نظر آئیں جب ہزاروں کی تعداد میں باغیوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر دھاوا بولا اور پھر جنوب کی طرف حما کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے ملک کے مختلف حصوں میں کئی دھڑوں کی طرف سے تحریک اور حملوں کو جنم دیا، اور شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔صرف 3 دن میں ان فورسز نے تقریباً 70 قصبوں پر قبضہ کر لیا، جن میں حلب کے بیشتر علاقے، سرکاری عمارتیں اور جیلیں شامل ہیں۔ اسی طرح ادلب، حماہ کے علاقوں اور سراقب شہر جیسے اہم اسٹرٹیجک مقامات پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ ہیئت تحریر الشام اور ان کے اتحادی جمعہ کو ‘‘2 فدائی کار بم دھماکوں’’ کے بعد سراقب شہر کے دروازوں تک پہنچ گئے اور آہستہ آہستہ اس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔انھوں نے‘ایم 5’’ شاہراہ کو بھی بند کر دیا، جو دمشق کو حلب سے جوڑتی ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایک ایسے چوراہے پر بھی قبضہ کر لیا جو اللاذقیہ کے ساتھ رابطہ فراہم کرتا ہے۔ ہفتے کی صبح، قومی فوجی حلب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی قابض ہو گئے، جیسا کہ مبصرین نے رپورٹ کیا۔یہ کارروائی ترکی کے زیر انتظام شمال مغربی صوبہ ادلب میں موجود درجن سے زائد دھڑوں کے اتحاد نے شروع کی۔ اس کی قیادت حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہی ہے جو وہ اسلام پسند گروہ ہے جو ماضی میں القاعدہ کے ساتھ منسلک تھا، لیکن کئی سال کے دوران اس نے اپنے جہادی ماضی کی دھندلی شناخت سے دور ہونے کے لیے سخت تگ ودو کی۔میدان میں موجود شامی صحافیوں کے حوالے سے بتایا گیاہے کہ اس اتحاد نے حلب، اس کے فوجی اور شہری ہوائی اڈے، اور وہ قصبے جو انقلاب کا گہوارہ تھے، پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ یہ علاقے حلب سے جنوب میں ایک اور بڑے شہر حما کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہیں۔اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے لوگ جو 5 سال پہلے حکومت کے قبضے کے دوران یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے، وہ پہلی بار واپس لوٹ آئے ہیں۔مشرق میں مزید اطلاعات ہیں کہ کردوں کی زیر قیادت شامی جمہوری افواج (ایس ڈی ایف) جو بظاہر ملک کے شمال مشرقی حصے کو کنٹرول کرتی ہیں، اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں اور وہ رقہ اور دیر الزور میں حکومتی افواج کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہی ہیں۔جنوب میں، شمال میں اپوزیشن کی تیز رفتار کامیابیوں سے متاثر ہو کر، وہ سابقہ اپوزیشن شخصیات جو حکومت کے ساتھ ‘صلح’ کر چکی تھیں، بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سابق باغیوں نے دیہی حمص میں حکومت سے قصبے چھین لیے ہیں اور اب وہ صوبائی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی تصادم شام کے دارالحکومت دمشق اور جنوبی صوبے درعا میں بھی شروع ہو چکے ہیں، جو کبھی انقلاب کا گہوارہ تھا۔اطلاعات کے مطابق درعا میں سابق اپوزیشن دھڑے چھ مختلف قصبوں میں حکومتی افواج سے لڑ رہے ہیں اور حکومتی فوجی اپنے ٹھکانے چھوڑ رہے ہیں۔ اس صورت حال کا بڑا سبب یہ کہ شام کے حکمراں بشارالا سد نے کئی سال سے اپنی داخلی حمایت کو کمزور کیا ہے کیونکہ انہوں نے حکومت کرنے کا انداز نہیں بدلا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے بعد بھی امن کے ثمرات مہیا نہیں کیے۔ جس کی وجہ سے ان کی حکومت بدستور استحصالی اور بدعنوان انتظامیہ کے طور پر کام کرتی رہی، غیر قانونی معیشتیں چلاتی رہی اور اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ ملک سے باہر منتقل کرتی رہی۔ یہاں ایک شدید معاشی بحران ہے، اور فوجیوں کا حوصلہ پست اور ان کی حمایت نہایت محدود ہے۔باغیوں نے شام کی حکومت کے خلاف پیش قدمی کیلئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیاہے جب روس یوکرائن میں مہنگی اور طویل جنگ میں الجھ چکا ہے۔ لبنانی جنگجو گروپ حزب اللہ کو حالیہ اسرائیلی تنازع میں تباہ کن نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس تنازع میں اس کے اعلیٰ کمانڈرز، بشمول سربراہ حسن نصراللہ، جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ایران اور اس کی حامی ملیشیائیں بھی غزہ کی جنگ اور اسرائیل کے ساتھ جاری تنازعات کے باعث پہلے سے زیادہ مصروف ہیں جس کی وجہ سے ایران اور حزب اللہ دونوں ہی شام میں اپنی مداخلت کو کم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں تاکہ اسرائیلی حملوں سے بچا جا سکے۔ شام میں باغیوں کی حالیہ کارروائی کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ہمیں فی الوقت ایسی کوئی بیرونی طاقت نظر نہیں آتی جو اسد کی حمایت میں دوبارہ یہ تمام علاقہ واپس لینے میں مدد کر سکے کیونکہ فی الوقت تمام فریقین غالباً اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر رہے ہیں۔حکومتی افواج پر باغیوں کے ان حملوں کے پیشِ نظر، بشار الاسد کی سرکاری افواج پیچھے ہٹ گئیں اورحملہ آوروں نے حکومت کی کمزوری اور عوام کی حمایت سے محرومی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، آنے والے دنوں میں شامی فوج کے دوبارہ منظم ہونے کی توقع ہے اور جو کچھ ہوا وہ فی الحال ایک اسٹرٹیجک پسپائی بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کا امکان کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ایوری انسٹی ٹیوٹ کے ترکی، مشرق وسطیٰ پروگرام کے محققین کے مطابق، اب کوئی قابلِ ذکر مزاحمت باقی نہیں رہی ہے،جس کی وجہ سے اب شام کے عوامی حمایت سے محروم اور طاقت کے زور پر مخالفین کو دبانے اور ملکی وسائل اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس میں منتقل کرنے والے حکمراں بشارالاسد کی حکومت خطرے میں ہے اور بشارالاسد کسمپرسی کے عالم میں اپنے اتحادیوں کی جانب سے مدد کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔اب غالباً ان کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اپنے ہی عوام کو ظلم اورجبر کے ذریعے دبانے کا انجام کتنا خوفناک ہوتاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں