محکمہ آبپاشی کا آر بی او ڈی ٹو منصوبہ لوٹ مار کا شکار
شیئر کریں
(رپورٹ: علی آزاد)وفاقی حکومت اور محکمہ آبپاشی سندھ کے آر بی او ڈی ٹو منصوبے میںمال مفت دل بے رحم کی مثال سامنے آگئی، ترقیاتی کام بند ہونے کے باوجود 16 کروڑ روپے خرچ کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے، رقم خرد برد ہونے کا خدشہ۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے سکھر بیراج کے سیم کا پانی سمندر میں خارج کرنے اور میٹھے پانی کی جھیل منچھر کو بچانے کے لئے سال 2001 میں سیوہن سے سمندر تک رائٹ بینک آوٹ فال ڈرین ٹو کا منصوبہ شروع کیا، منصوبہ کی تعمیر پر عملدرآمد حکومت سندھ کے محکمہ آبپاشی کی ذمہ داری ہے، آر بی او ڈی ٹو پر سال 2016 سے سال 2020 تک تمام تعمیراتی سرگرمیاں بند رہیں لیکن انتظامیہ منصوبے پر افسران کی تقرری کے دعوے کرتی رہی اور افسران، ملازمین کو پروجیکٹ الائونس کی مد میں 14 کروڑ 30 لاکھ روپے پروجیکٹ الائونس کے طور پر ادا کئے، محکمہ آبپاشی کے افسران نے سرگرمیاں بند ہونے کے باوجود غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کئے بلکہ افسران اور ملازمین پر کروڑوں روپے کی برسات کی۔ افسران کا کہنا ہے کہ آر بی او ڈی ٹو پر تعینات ملازمین کو سرگرمیاں نہ ہونے کے باوجود کروڑوں روپے کی ادائیگی کرنا سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالنا ہے اورقومی خزانے کو ٹیکہ لگانے کے برابر ہے، اعلیٰ حکام کو مئی 2022 میں آگاہ کیا گیا لیکن ڈیپارٹمنٹل ایکشن کمیٹی کا
اجلاس طلب کیا اور نہ کوئی انکوائری کی گئی۔آر بی او ڈی ٹوکا 273 کلومیٹر لمبا ڈرین نان آپریشنل ہے لیکن اس کے باوجود محکمہ آبپاشی کے افسران اور آر بی او ڈی کی انتظامیہ نے ملازمین کوسال 2017 سے ایک سال تک ورک چارج کی مد میں 12 کروڑ 10 لاکھ روپے جاری کئے، نان آپریشنل ڈرین کے ملازمین کو ورک چارج کی رقم دینا سوالیہ نشان ہے۔ واضح رہے کہ آر بی او ڈی ٹو کا منصوبہ 14 سال گذرنے کے باوجود تاحال مکمل نہیں ہوسکا اور منصوبے کی لاگت میں 32 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، اعلیٰ حکا م نے سفارش کی ہے کہ منصوبہ میں تاخیر اور لاگت میں بے تحاشا اضافے کی انکوائری کرکے ذمہ دار افسران کا تعین کیا جائے لیکن محکمہ آبپاشی کے افسران کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔