میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغانستان:افیون کی پیداوار میں کمی کا رجحان برقرار, اقوام متحدہ نے تصدیق کردی

افغانستان:افیون کی پیداوار میں کمی کا رجحان برقرار, اقوام متحدہ نے تصدیق کردی

Author One
جمعرات, ۲۸ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

اسلام آباد :اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ افغانستان میں افیون کی پیداوار میں کمی کا رحجان برقرار ہے –

تاہم کاشت کاروں کو متبادل زرعی مواقع مہیا نہ کیے گئے تو یہ کامیابی خطرے میں پڑ جائے گی۔

طالبان حکمرانوں کی جانب سے ملک بھر منشیات پر کڑی پابندیوں کے باعث گزشتہ برس کی طرح رواں سال بھی ملک میں افیون کی پیداوار 2022 کے مقابلے میں 93 فیصد کم رہی۔

تاہم اس کمی کے نتیجے میں مصنوعی (لیبارٹری میں تیارکردہ) منشیات کی پیداوار اور استعمال میں اضافے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے-

منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق، امسال ملک میں 433 ٹن افیون پیدا ہوئی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یہ دو سال پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

این او ڈی سی’ کی جانب سے 6 نومبر کو جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال 12,800 ہیکٹر پر افیون پیدا کی گئی۔

اس کی قیمت تقریباً 260 ملین ڈالر تھی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 130 فیصد زیادہ مگر 2022 میں پابندی سے پہلے کے عرصہ سے 80 فیصد کم ہے۔

مصنوعی منشیات کا خطرہادارے نے افغانستان میں منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والے طبی مسائل پر قابو پانے کی صلاحیتوں اور وسائل پر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے اشتراک سے بھی ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں منشیات کے عادی بیشتر افراد افیون اور ہیروئن استعمال کرتے ہیں-

تاہم میتھم فیٹامائن جیسی مصنوعی منشیات کے استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے عادی افراد کا علاج اور بھی مشکل کام ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منشیات کی لت کے علاج تک رسائی، اس مقصد کے لیے وسائل اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ملک کے 34 میں سے 32 صوبوں میں اس علاج کی سہولت موجود ہے لیکن خدمات کی فراہمی، ان تک رسائی کے حوالے سے مختلف علاقوں اور طبقات کے مابین نمایاں تفاوت پایا جاتا ہے۔

خواتین مریضوں کی علاج معالجے تک رسائی بہت محدود ہے۔

ملک میں منشیات کے عادی افراد کی 82 علاج گاہوں میں سے صرف 17 ہی خواتین کے لیے مخصوص ہیں جو ایک تہائی سے کچھ زیادہ صوبوں میں واقع ہیں جس کے باعث بہت سی خواتین کو ضروری علاج معالجہ اور دیکھ بھال میسر نہیں آتی۔

منشیات کی علاج گاہوں میں تربیت یافتہ عملے اور نیلوزون دوا سمیت ضرورت سازوسامان کی بھی کمی ہے۔

ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ مسلسل دوسرے سال افیون کی کاشت اور پیداوار میں کمی مواقع کے ساتھ پیچیدہ مسائل کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

عالمی برادری کو یہ یقینی بنانے کی کوششیں کرنا ہوں گی کہ افیون کی پیدوار میں کمی مصنوعی منشیات کی پیداوار میں اضافے کا سبب نہ بننے پائے۔

اس کے علاوہ پوست کی کاشت پر انحصار کرنے والی دیہی آبادی کو قانونی اور معاشی اعتبار سے فائدہ مند زرعی متبادل بھی دینا ہوں گے –

اس مقصد کے لیے بنیادی ڈھانچے، زرعی وسائل اور مستحکم روزگار پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ رواں سال افغان کسانوں نے اس زمین پر پہلے سے بڑی مقدار میں اناج اور کپاس کاشت کی ہے۔

تاہم، افیون کی کاشت سے کسانوں کو گندم کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔

جب تک انہیں منافع بخش اور قانونی متبادل نہیں ملیں گے تب تک معاشی مشکلات بعض کسانوں کو دوبارہ پوست کاشت کرنے پر مجبور کرتی رہیں گی۔

‘یو این او ڈی سی’ کے مطابق، اب بیشتر افیون جنوب مغربی افغانستان کے بجائے ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں کاشت ہونے لگی ہے۔

ملکی حکمرانوں اور عالمی برادری کے مابین ہنگامی بنیادوں پر تعاون ضروری ہے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں