میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرم کی افسوسناک صورت حال حکومت کیا کر رہی ہے؟

کرم کی افسوسناک صورت حال حکومت کیا کر رہی ہے؟

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۴ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے علاقے اوچت میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 4درجن سے زیادہ ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں میں سے بھی کم وبیش ایک درجن افراد کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر متعدد مقامات پر حملہ کیا گیا تھا۔ ہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں جنھیں نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کو تحفظ دینے کیلئے پولیس کی نفری ضرورت سے بہت کم تھی ،یہ قافلہ اس سڑک پر سفر کر رہا تھا جسے اکتوبر کو مسافر گاڑیوں پر حملے کے واقعے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا کرم پولیس کے مطابق ‘قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم 14 کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچت شامل ہیں۔اوچت کا علاقہ پاڑہ چنار اور ٹل کے درمیان واقع ہے ، اوچت ٹل سے 24 کلومیٹر جبکہ پاڑہ چنار سے کوئی 75 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع 3 اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ‘پیرٹس بیک’ یعنی ‘طوطے کی چونچ’ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی ا سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جس کے بعد6 روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع رہا۔کرم پولیس کے مطابق دہشت گردی کی حالیہ واردات میں ہلاک ہونے والے 44 ہلاک شدگان کی میتیں پاڑہ چنار پہنچ چکی ہیں جبکہ 39 زخمیوں میں سے 11 ٹل کے فوجی ہسپتال جبکہ شدید زخمی پشاور منتقل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 زخمی علی زئی کے ہسپتال اور 3پاڑہ چنار کے ہسپتال میں موجود ہیں۔اس واقعے کے بعد علاقے کی فضا سوگوار ہے ،علاقے میں کشیدگی ہے اور لوگ شدید غم و غصے کی حالت میں ہیں۔ واقعے کے خلاف مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا ۔اس حوالے سے کراچی میں نکالی گئی ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے رہنماؤں نے ضلع کُرم سمیت خیبر پختونخوا بھر میں خونریزی کے واقعات کے تسلسل کی وجہ سے علاقے میں دہشت گردوں اور قانون شکنوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔
رواں سال اگست کے مہینے میں ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کے دوران جس میں کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے خیبر ضلع کرم میں صورت حال عدم استحکام کا شکار ہے، ایسے میں گزشتہ روز پیش آنے والا ہولناک واقعہ حیران کُن نہیں تھا۔ لوئر کرم میں گاڑیوں کے قافلے پر کیے جانے والے دہشتگردانہ حملے میں کم از کم 38 افراد جاں بحق ہوئے جوکہ رواں سال پیش آنے والے کسی انفرادی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔اس قافلے میں زیادہ تر شیعہ کمیونٹی کے افراد سوار تھے۔ خیبرپختونخوا کے اس خطے میں انتہاپسندی، قبائلی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں بڑی تعداد میں سنی اور شیعہ دونوں کمیونٹیز کے افراد کی اموات ہوئی ہیں جن کی وجہ سے یہاں حالات انتہائی خطرناک رخ اختیار کرچکے ہیں۔ صورت حال کے بارے میں علاقے کے لوگوں کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ ریاست نے طویل عرصے سے اس معاملے پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں یا انہیں حل کرنے کے لیے قابلِ قدر کوششیں نہیں کیں۔رواں سال دو قبائل کے درمیان زمین کا تنازع شدت اختیار کرکے خوفناک شکل اختیار کرچکا ہے جس میں جولائی سے لے کر رواں ماہ تک 80 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہلاک افراد میں سے بیشتر بہ ذریعہ سڑک سفر کررہے تھے۔ دو ہفتے قبل کرم کے مقامی افراد نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا جہاں انہوں نے امن اور سڑکوں پر حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا،لیکن ایک حکومت مخالف ریلی یا احتجاج کو روکنے کیلئے ملک کی تمام فورسز کی تمامتر طاقت جھونک دینے والے وزیر داخلہ ان کم وسیلہ سیدھے سادھے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ریاست اانسانی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ان کے جائز مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہی جس کا اظہار گزشتہ روز کے سفاکانہ واقعے سے ہوتاہے۔بدقسمتی سے وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت دونوں اس وقت سیاست کے کھیل میں اتنے مصروف ہیں کہ کرم اور صوبے کے دیگر حصوں کے حالات پر وہ توجہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ بیانات جاری کردیے جاتے ہیں، وعدے کیے جاتے ہیں لیکن قتل وغارت گری کے سفاکانہ واقعات سے ظاہرہوتاہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کو یونہی خونخوار دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے حالات خراب تر بہوتے جارہے ہیں۔خیبرپختونخوا کے امن کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے عسکریت پسندوں کے خاتمے میں سیکورٹی ادارے بھی ناکام ہیں۔ فرقہ واریت اور افغانستان سے قربت کے باعث کرم ایک حساس ضلع ہے جبکہ یہاں انتہاپسند گروہ اور بھاری اسلحہ بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود ریاست اس علاقے کو ہتھیاروں سے پاک کرنے اور قبائلی تنازعات کا معتدل حل نکالنے میں ناکام ہے جو خونریزی کا سبب بن رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ کرم میں قتل وغارت گری کے واقعات کے تسلسل کو نظرانداز کرنا ریاست کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ہی خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ کرم میں عدم استحکام کی صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو یہ قابل مذمت صورت حال ملحقہ اضلاع میں بھی پھیل سکتی ہے اور مفاد پرست عناصر پورے پاکستان میں فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کے لیے خطے کے اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔حالیہ حملے کے بعد ریاست کا اولین کام ذمہ دار عناصر کو تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دینا ہونا چاہیے ۔ یہ بات واضح ہے کہ حالیہ وحشیانہ حملے کے بعد معاملات معمول کے مطابق نہیں چل سکتے ،موجودہ صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے وفاقی حکموت کو خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے ساتھ اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ خیبر پختونخواہ کی منتخب صوبائی حکومت ،کرم کے مقامی افراد اور خیبرپختونخوا کی کمزور کمیونٹیز کو ساتھ ملاکر اس صورت حال کے سدباب اور اس طرح کے واقعات کے اعادے کو روکنے کیلئے کوئی قابل عمل حکمت عملی تیار کرنا ہوگی اور اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری اور مقامی لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کو مشترکہ طورپرمضبوط حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صوت حال پر تبادلہ خیال کے لیے کثیرالجماعتی کانفرنس کا انعقاد اگلے ماہ ہورہاہے۔ حالیہ شدت پسند حملے کے بعد یہ کانفرنس فوری طورپر یعنی قبل از وقت بلائی جانی چاہیے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر صورت حال کے اسباب پر غور کے بعد مسئلے کا کوئی قابل عمل حل نکال سکیں۔ اس کے علاوہ فاقی اور صوبائی حکومتوں اورریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور قبائلی عمائدین کو بھی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند ہو۔ریاست نے کرم کی سیکورٹی کے لیے اپنی کارروائیوں میں پہلے ہی کافی تاخیر کردی ہے۔ اب وقت ہے کہ پُرتشدد واقعات کا نشانہ بننے والے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے،ان کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے اور اس سفاکانہ واردات میں شہید ہونے والے لوگوں کے ورثا کو وفاقی حکومت کی جانب سے مناسب ہرجانہ ادا کیا جانا چاہئے تاکہ جو لوگ اپنے کفیلوں سے محروم ہوگئے ہیں وہ پیٹ بھرنے کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوں۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ، دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کا سراغ لگا کر انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔وزارت داخلہ کا فرض ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کیلئے منصوبہ بندیوں کے بجائے کرم جیسے علاقوں میں پائیدار امن کے قیام کیلئے کوششیں کریں ،ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں جس رفتارسیفتنہ الخوارج کی مذموم کارروائیوں میں تیزی آئی ہے یہ وطن عزیز کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ ہے۔حالات کا تقاضا ہے کہ فوجی آپریشن کا دائرہ خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں تک بڑھایا جائے،اب وقت آگیاہے کہ ہم سب ذاتی مفاد پر پاکستان کو ترجیح دین، ریاست ماں کی طرح ہے۔پاکستان کے سوا ہماری کوئی شناخت نہیں ہے، یہ صحیح ہے کہ ہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشکلات جتنی بھی ہوں اگر ہم سب مل کر کھڑے ہو جائیں تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی استحکام لانے کے لیے بھی کردار ادا کرے اور اپنے سیاسی مخالفین سے لڑائی کو ایسی صورت ہرگز اختیار نہ کرنے دے جس سے ملک اور عوام کو نقصان پہنچے۔ حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عام آدمی اپنی پریشانیوں سے نکل کر مستقبل کی طرف دیکھ سکے۔ ہماری سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ عام آدمی کا ریاست پر اعتماد ملک کے مضبوط اور مستحکم بننے کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں