میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردوں کے پشت پناہوں کا سر کچلنا ضروری ہے!

دہشت گردوں کے پشت پناہوں کا سر کچلنا ضروری ہے!

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۲ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے مالی خیل میں سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 12 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔پاکستانی فوج کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس خودکش حملے کے نتیجے میں چیک پوسٹ کی دیوار اور آس پاس موجود عمارت بھی منہدم ہوگئی جس کے باعث 12 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ۔بیان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سیکورٹی فورسز کے 10 جوان اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے2 اہلکار ہلاک ہوئے۔ضلع بنوں کا علاقہ مالی خیل وزیرستان کی سرحد پر واقع ایک نیم قبائلی علاقہ ہے جہاں ماضی میں بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عسکریت پسند گروپ حافظ گل بہادر گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ریکارڈکے مطابق گل بہادر ماضی میں دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان دھڑے کے فعال رکن تھے اور اس جماعت کی طلبہ کی شمالی وزیرستان شاخ کے سربراہ بھی رہے۔اطلاعات کے مطابق گل بہادر کی2 بیویاں ہیں لیکن ان کے بچوں کی درست تعداد بھی معلوم نہیں۔گل بہادر کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق انھوں نے عسکریت پسندی کے میدان میں باضابطہ قدم 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد رکھا تھا۔ گل بہادر نے 2001 میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف لڑنے کے لیے جانے والے مقامی قبائلی جنگجووں کو ‘شوری مجاہدین’ کے نام سے اکھٹا کیا۔2001 کے بعد جب افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغان طالبان کے حامی مقامی عسکریت پسند گروہ یکے بعد دیگرے سامنے آئے تو ان میں شوری مجاہدین ایک اہم گروہ بن گیا جس نے شمالی وزیرستان میں افغان طالبان اور القاعدہ سمیت مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پناہ گاہیں فراہم کیں۔گل بہادر نے تمام تر قریبی تعلقات کے باوجود تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہونے سے انکار کیا اور وہ کبھی اس میں شامل نہیں ہوئے۔
وطن عزیز دنیا بھر میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک تصور کیاجاتا ہے، پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، البتہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں سیاسی علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں گزشتہ دو دہائیوں میں10 ہزار سیکورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت 80 ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جب کہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150 بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے ہمارا ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت ملوث ہیں۔صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اندرون ملک چھپے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور وہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ جب جی چاہتا ہے بھاری جانی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت دہشت گردوں کو سب سے زیادہ طاقت اندرونی سہولت کاروں سے حاصل ہے۔ اسی طرح ہر بڑے واقعے کے پیچھے دہشت گردی کی کامیابی میں ان سہولت کاروں کا بہت بڑا کردار ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے بارے میں پاکستان ڈوزیئر جاری کرچکا ہے جس میں انتہائی ٹھوس معلومات جیسے بینک اکاؤنٹس اور ان بھارتی شہریوں کے شواہد بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شر پسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور ان کے مقامات بھی شامل ہیں۔افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن گزشتہ 3 برس کے دوران یہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ان میں زیادہ تر افغان باشندے ہی ملوث پائے گئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانوں کے پاک سر زمین پر مستقبل کو دہشت گردوں کی حوالگی اور سخت اقدامات سے مشروط کرتے ہوئے غیر قانونی افغانوں کی واپسی کے عمل کو مزید تیز کیا جائے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی یکسوئی بہت ضروری ہے، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا مسلح گروپوں میں اچھے برے کا امتیاز رکھا جائے گا، یہ بڑا مشکل فیصلہ ہے، بہت حساس معاملہ ہے۔ مسلح گروہ قومی مفاد کی پالیسی پر عمل کرتے بڑے بلند مرتبہ نظر آتے ہیں، لیکن جب ان کی ضرورت نہیں رہتی تو یہی اثاثہ سب سے بڑا ناسور بن جاتا ہے۔ ملک میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے بلکہ دہشت گردوں نے اب افواجِ پاکستان اور پولیس جیسے سیکورٹی اداروں کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بنا لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی کارروائیاں اب محض ٹارگٹ کلنگ، سڑک کنارے نصب دیسی ساختہ بموں کو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا کر فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے یا خود کش حملوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ اب پولیس تھانوں اور فوجی چیک پوسٹوں پر بڑے منظم انداز میں حملے ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے چھوڑے ہوئے اسلحے سے لیس اور کئی سال تک افغان طالبان کے شانہ بشانہ افغانستان میں غیرملکی افواج کے خلاف لڑائی کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد دہشت گردوں کے حملے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے، گو کہ افواجِ پاکستان ان شدت پسندوں سے تندہی سے لڑ رہی ہیں لیکن پولیس کو بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب پولیس رشوت اور وقتی مالی منفعت کو خاطر میں لانے کے بجائے وطن عزیز کی بقا اور سلامتی کو مد نظر رکھے اور یہ بات نظر انداز نہ کرے کہ چند ٹکوں کیلئے دہشت گردوں یا ان کے سہولت کاروں سے ساز باز کے نتیجے میں خود وہ اور ان کے اہل خانہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ لاقانونیت، ڈر اور خوف کی یہ صورتحال صرف خیبرپختونخوا کے مخصوص اضلاع تک ہی محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے بعض علاقے بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ سوال ضرور موجود ہے کہ اتنے عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے اور قربانیاں دینے کے باوجود نہ صرف دہشت گردی جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ کہیں دہشت گردی کے خلاف ہماری حکمت عملی میں کوئی فالٹ لائن تو نہیں جس کی وجہ سے ہماری کوششیں تاحال ثمر بار ثابت نہیں ہو سکیں۔اس فالٹ لائن کو تلاش کرنا اور اسے فوری طور پر دور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب اس کی وجہ سے ہمارے
دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور قومی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہو پا رہیں کیونکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری، جس کے بغیر معیشت کا پہیہ حرکت نہیں کر سکتا، امن و امان کی خراب صورتحال، عدم تحفظ، غیر یقینی اور دہشت گردی کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے تیار کی گئی حکمت عملی میں یہ بات بظور خاص مد نظر رکھی جانی چاہئے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، شروع شروع میں انھوں نے مدارس کے غریب طلبہ کو اپنا ہدف بنایا، خاص طور پران مدارس میں طلبہ پر توجہ دی گئی جو غریب علاقوں میں واقع ہیں اور بہت سے والدین اپنے بچوں کو اِن مدارس میں اِس لیے داخل کرا دیتے ہیں کہ انھیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی اور کپڑے کی سہولت بھی مفت حاصل ہو جائے گی، ایسے غریب طلبہ کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے، اِس لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آجاتے ہیں تو انھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔ اب آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی حکمت عملی بنانے والوں کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس مذہبی جوش و خروش سے یہ جنگجویانہ کلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبہ سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے، ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اور امن و مان کو برباد کرنے والوں نے کس کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔ جہاد کے نام پر فساد کر نے والوں نے اسلام کی خدمت کی ہے یا اس کے اجلے اور حیات بخش تصور کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔دنیا کی واحد ریاست جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی، ان جنگجوؤں کے ہاتھوں دنیا میں تماشہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے، اس میں طاقت کے استعمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری ہے کہ اس میں سیاسی پہلوؤں اور عوام کی رائے کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ایک پلیٹ فارم پر آنے ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ حکومت وقت ان تمام امور کو مدنظر رکھے گی اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کو مذہب اور عقیدے کی آڑ میں درپردہ سپورٹ فراہم کرنے والے آستین کے سانپوں کا سر کچلنے میں کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیاجائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں