نورین لغاری کے داعش سے رابطے‘کئی باتیں خفیہ رکھی جارہی ہیں‘اہل خانہ بھی جھوٹ بولتے رہے
شیئر کریں
پروفیسر عبدالجبار لغاری مسلسل غلط بیانی کرتے رہے کہ ان کی بیٹی صرف نماز پڑھتی ہے، ان کی بہترین دوست ایک ہندو لڑکی ہے اور ان کی بیٹی کو اغواءکیاگیا ہے
نورین لغاری اگرواپس آبھی گئی تو معاشرے میں اسے وہ عزت نہیں ملے گی جوپہلے تھی وہ ہمیشہ مشکوک رہیں گی اور آنے والی زندگی میں کانٹوں پر ہی چلیں گی
الیاس احمد
سندھ صدیوں سے صوفیوں کی سرزمین کہلاتی ہے اور سندھ میں انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں رہی لیکن جیسے وقت اور حالات تبدیل ہوئے ہیں سندھ میں بھی انتہا پسندی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے ۔شکار پور‘ خان پور‘ جیکب آباد اور ڈاکٹر ابراہیم جتوئی پر خودکش حملوں میں بروہی قبیلہ کے چند افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تو سندھ میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ کیا سندھ کے نوجوان بھی اب شدت پسند ہوگئے ہیں؟ حفیظ بروہی اور عبداللہ بروہی کا نیٹ ورک اتنا مضبوط اور مو¿ثر ہے کہ وہ براہ راست القاعدہ‘ طالبان اور داعش سے رابطہ کرتے ہیں وہ خودکش حملہ آور تیار کرتے ہیں اور نوجوانوں کو تخریب کاری‘ دہشت گردی کا ایندھن بناتے ہیں۔ اب تو حفیظ بروہی عرف حفیظ پندھرانی اور عبداللہ بروہی کے سروں کی قیمت مقرر کردی گئی ہے اور وہ اب ”موسٹ وانٹیڈ“ کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں ،ابھی سیہون خودکش حملہ کی تحقیقات میں بھی حفیظ بروہی اور عبداللہ بروہی کے نیٹ ورک کی تحقیقات ہورہی تھی کہ اچانک ایک دھماکہ خیز خبر آئی کہ سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالجبار لغاری کی بیٹی اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کے دوسرے سال کی طالبہ نورین لغاری داعش میں شمولیت کے لیے شام پہنچ گئی ہیں۔ پروفیسر عبدالجبار لغاری مسلسل غلط بیانی کرتے رہے کہ ان کی بیٹی صرف نماز پڑھتی ہے، ان کی بہترین دوست ایک ہندو لڑکی ہے اور ان کی بیٹی کو اغواءکیاگیا ہے اور اس نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آرمی چیف کو اپیل کردی کہ نورین لغاری کو واپس لایا جائے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکم دیا کہ نورین لغاری کو بازیاب کرایا جائے اور پھر ایک خفیہ ایجنسی نے لاہور میں ایک ایسٹر کے تہوار سے ایک دن قبل ایک گھر پر چھاپہ مار کر ایک دہشت گرد کو ہلاک کردیا۔ ایک کو گرفتار کرلیا اور ایک لڑکی کو بھی برآمد کرلیا، بعد میں اس لڑکی کی شناخت نورین لغاری کے نام سے ہوئی۔ اب ذرا نورین لغاری کے بارے میں جانتے ہیں۔ نورین لغاری کا داعش کی جانب جھکاﺅ اس وقت ہوا جب وہ فرسٹ ایئر اورانٹر کی طالبہ تھیں۔ پھر جب وہ کالج سے نکل کر میڈیکل یونیورسٹی میں داخل ہوئیں تو اس نے داعش سے رابطے بڑھادیے جس گھر سے نورین کو برآمد کیاگیا اس گھر میں علی نامی دہشت گرد مارا گیا وہ بھی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالجبار لغاری خود بھی انتہا پسندی کی سوچ کے حامل ہیں، ان کے گاﺅں کا ماحول بھی انتہائی سخت ہے مگر وہ بیٹی کی گمشدگی کے وقت ایسا دکھانے لگے جیسے وہ لبرل اور اعتدال پسند ہوں ۔ نورین جیسے ہی میڈیکل یونیورسٹی میں آئیں تو انہوں نے داعش سے رابطے بڑھادیے۔ وہ ملکی سلامتی کے اداروں کی نظر میں آگئیں مگر وہ سمجھتی رہیں کہ وہ ملکی سلامتی کے اداروں کو دھوکا دے رہی ہیں۔ ان کی گمشدگی سے قبل وہ کڑی نگرانی میں آچکی ہیں، داعش سے رابطہ رکھنے والوں کے ساتھ وہ ملتی رہیں حتیٰ کہ دو تین مرتبہ حساس اداروں نے نورین لغاری کے گھر پر چھاپہ مارا اور کئی چیزیں برآمد کرلیں۔ پروفیسرجبار لغاری ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بلوچ کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی ،وہ اپنے ساتھ ایک خاتون ایم پی اے اور ایک پروفیسر کو بھی لے گئے۔ دو مرتبہ تو ایس ایس پی حیدرآباد نے معمولات اور غلط فہمی پر مبنی چھاپہ قرار دیا، تیسری مرتبہ ایس ایس پی نے خاتون ایم پی اے کو چیمبر میں لے جا کر کہا کہ وہ اس معاملہ سے الگ ہوجائیں کیونکہ نورین لغاری کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے وہ داعش سے رابطے میں ہے۔ خیر پھر اسی شام کو پروفیسر جبارلغاری کے دوست پروفیسر کو بھی ایس ایس پی حیدرآباد نے بلاکر کہا کہ نورین لغاری داعش سے رابطے میں ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی متوقع ہے۔ اس پروفیسر نے پروفیسر عبدالجبار لغاری کو جاکر خبردار کردیا، لیکن اس خاندان نے اپنی بیٹی کو نہیں روکا۔ ظاہر بات ہے کہ اس خاندان کی داعش کے لیے ہمدردی تھی اور ان کو پیسہ ملنے کا بھی آسرا تھا۔ پھر نورین لغاری حیدرآباد سے لاہور بذریعہ بس چلی گئیں اور ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر رکھی کہ وہ خلافت کی سرزمین (شام) پہنچ گئی ہیں اور خیریت سے ہیں۔ یہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ اصل میں وہ جیسے ہی لاہور پہنچیں تو داعش کے دہشت گردوں نے اس کو مال غنیمت سمجھا اور روزانہ اس کا نکاح ایک دہشت گرد سے ہوتا اور صبح اس کو طلاق دے دی جاتی اور پھر اگلی رات وہ ایک شب کی دلہن بن جاتیں، یہ سلسلہ دو ڈھائی ماہ تک چلتا رہا۔ داعش کے دہشت گردوں نے نورین لغاری کو جیتے جی ہی تباہ کردیا، ڈھائی ماہ تک وہ ایک رات کی دلہن بنتی رہی اور دہشت گرد اس کی عزت کے ساتھ کھیلتے رہے پھر وہ تنگ ہوگئیں اور آخر انہوں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرکے ملکی سلامتی کے اداروں سے رابطہ کیا اور ان کو ایسٹر کے تہوار پر دہشت گردوں کے منصوبہ سے آگاہ کیا تب جاکر چھاپہ مارا گیا اور ایک دہشت گرد ہلاک اور ایک کوگرفتار کیا۔ بعدازاں دوسرے دہشت گرد کو بھی کسی دوسری جگہ سے گرفتار کیاگیا۔ نورین لغاری کا اعترافی بیان بھی ٹی وی چینلز پر نشر ہوچکا ہے۔ اب آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ نورین لغاری گھر جاکر دوبارہ معمول کی پرامن زندگی گزارسکے اس کے بعد نورین لغاری کا کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ نورین لغاری اور اس کے خاندان نے انتہا پسندی کی سوچ رکھ کر سزا بھگت لی ہے اور بدامنی الگ سے مول لی ہے اب یہ سندھ کے لوگوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ انتہا پسندی کی سوچ رکھیں گے تو پھر ان کا حشر بھی نورین لغاری جیسا ہوگا۔ نورین لغاری اب اگرواپس آبھی گئی تو معاشرے میں اس وہ عزت نہیں ملے گی جو پہلے ملی تھی وہ
ہمیشہ مشکوک رہیں گی اور آنے والی زندگی میں وہ کانٹوں پر ہی چلیں گی۔