میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آخر ہم کہاں کھڑے ہیں؟

آخر ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۵ اکتوبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے چین اور دیگر دوست ممالک نے پاکستان سے بار بار کہا ہے کہ جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس وقت تک معاشی استحکام ممکن نہیں۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں ہر آنے والے دن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسی ملک چین کے علاوہ دیگر ممالک سے کچھ سیکھنا ہوگا۔ بھارت اگرچہ ہمارا دشمن ملک ہے لیکن دشمن سے بھی کچھ اچھی باتیں سیکھ لی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چین کی ترقی ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔
1949 میں جب ما وزے تنگ اقتدار میں آئے تو جنگ سے تباہ حال چین غربت کی چکی میں پس رہا تھا لیکن آج کمیونسٹ نظریہ رکھنے والوں کی فتح کے 75سال بعد یہ ملک یکسر مختلف تصور پیش کر رہا ہے۔ چین اس وقت ایک بڑی عالمی طاقت ہے اور دنیا کی سرکردہ معیشت بننے کے راستے پر گامزن ہے لیکن چین کا معاشی معجزہ جو تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے کیسے ہوا ؟یہ ماؤزے تنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک اور کمیونسٹ رہنما ڈینگ سیائو پنگ کی طرف سے فروغ دی گئی مہم کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ اس مہم کو اصلاح اور افتتاح کا نام دیا گیا تھا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ پروگرام 740 ملین لوگوں کو غربت سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔ چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے نظریے کے ڈینگ نے چین کے پرانے نظام کو الوداع کہا اور اقتصادی اصلاحات کے ایک نئے سلسلے کو فروغ دیا جس میں زراعت نجی شعبے خود مختاری صنعتی جدت اور چین کو تجارت کا عالمی مرکز بنانے پر توجہ دی۔ اس راستے نے ملک کو ماو ٔزے تنگ کے کمیونزم سے باہر نکال دیا۔ چینی صدررشی جن پنگ نے اس عمل کو ماضی کی زنجیروں کو توڑنے سے تعبیر کیا ہے۔
چین میں صحیح معنوں میں تبدیلی کا آغاز 1978میں ہوا ۔اس وقت چین اس ملک سے بہت مختلف تھا جس کی معیشت کا آج اکثر امریکہ یا یورپی یونین سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ایک غریب ملک تھا جس کے 800 ملین سے زیادہ شہریوں کے لیے 150بلین امریکی ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار تھی۔ اب اگر اس کا موازنہ 2022میں 18ٹریلین امریکی ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار سے کیا جائے تو اس تبدیلی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ 1976میں فوت ہوئے اور ایک متنازع میراث چھوڑ گئے تھے۔ اس کے بڑے منصوبوں میں 1958سے 1962تک کا چار برس کا پروگرام گریڈ لیپ فارورڈ بھی شامل تھا، جس کا مقصد تو ملک کی زرعی معیشت کو تبدیل کرنا تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے قحط پڑا جس میں کم از کم 10 ملین یا ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 45ملین تک بنتی ہے۔ اس کے علاوہ 1966تا 1976تک کا ثقافتی انقلاب جو ماؤکی سرمایہ داری کے حامیوں کے خلاف ایک مہم تھی، اس میں مختلف ذرائع کے مطابق لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ غربت اور بھوک کی اس صورتحال میں چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی یعنی سی سی پی کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری ڈینگ ونگ نے نظام کی تبدیلی کی ایک تجویز پیش کی ۔ڈینگ نے نام نہاد چار جدید کاری کے پروگرام اور ایک ایسی معیشت کا انتخاب کیا جس میں مارکیٹ کا کردار زیادہ تھا۔ ان کے اس پروگرام کی 18دسمبر 1978ء کو سی سی پی کی مرکزی کمیٹی نے توثیق کی اور اقتصادی جدید کاری کو بنیادی ترجیح پر رکھا۔ اگلے برسوں میں ایسی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں جو اس وقت خواہشات پر مبنی لگ رہی تھیں مگر پارٹی کے انتہائی قدامت پسند طبقے کی مخالفت کے باوجود اس نئے پلان پرعمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ اب زرعی شعبے کی مثال لے لیں جہاں دیہی معیشت کے ماؤکے نظام کو بتدریج ترک کر دیا گیا اور اس کے تحت پھر پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ممکن ہو سکا اور ملک کے علاقوں کو غربت سے نکالنے کے علاوہ مزدوروں کی شہروں کی طرف نقل مکانی کی حوصلہ افزائی بھی اسی کی تحت ہوئی ۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے پہلی بار ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی کھول دیا گیا۔ خصوصی اقتصادی زونز بنائے گئے جیسا کہ شینزین شہر جس میں ایک ناقابل یقین تبدیلی آئی اور آج اسے اکثر چینی سیلی کون ویلی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس نئی پالیسی کے بعد پھر بیرونی دنیا نے چین کی پیداواری صلاحیت اور نئے انتظامی طریقوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تبدیلیوں نے ایک طویل عمل کے بعد بآلاخر چین کو 2001میں عالمی تجارتی تنظیم کا حصہ بنا دیا۔ یوں چین گلوبلائزیشن کی طرف بڑھا جس سے اسے معاشی عروج حاصل کرنے میں بہت مدد ملی۔ 2008ء میں جب عالمی مالیاتی بحران شروع ہوا اور مغرب نے نئی منڈیوں کی تلاش شروع کی تو ایسے میں چین سب کا انتخاب بن گیا اور یوں یہ دنیا بھر کی فیکٹری میں تبدیل ہوا ۔تاہم اپنے معاشی عروج کے بعد بیجنگ اس لیبل کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اب وہ مینوفیکچرنگ سے بڑھ کر ایک ایسا ملک بننا چاہتا ہے کہ جو نئی تخلیق کرے اور دنیا میں حکمرانی کرے۔ ایسے بہت سے اشارے ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چین پہلے سے ہی اس راستے پر چل رہا ہے ۔ایم ڈی ایس ٹرانسپورٹ ڈیل جو کہ ایک ٹرانسپورٹ اکنامکس کنسلٹنٹسی فرم ہے ،کے مطابق ملائشیا اور بنگلہ دیش اب گارمنٹس بنانے والے بڑے ملک بن گئے ہیں جبکہ یہی کام 15برس پہلے چین میں ہو رہا تھا اقدام نے بھی 2014 کے بعد تجارتی مینوفیکچرنگ میں بڑا نام پیدا کیا ہے ۔
اقتصادی کامیابی کے باوجود اصلاحات کے سبب چین میں منفی نتائج بھی سامنے آئے جن میں اس کے بیشتر شہروں میں سنگین فضائی آلودگی اور ملک میں عدم مساوات میں بڑا اضافہ شامل ہیں۔ تا ہم فضائی آلودگی اب بہت سے شہروں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شگاگو یونیورسٹی میں انرجی پالیسی انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے 2013اور 2020 کے درمیان ہوا میں نقصان دہ ذرات کی مقدار میں 40فیصد کمی کی ہے ۔مختلف ذرائع بتاتے ہیں کہ عدم مساوات جو دو ہزار کی دہائی میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی گزشتہ دہائی کے دوران اس میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن بہت سی تبدیلیوں کے باوجود جو چیز برقرار ہے وہ ایک سیاسی نظام ہے جس پر دنیا کے مختلف حصوں میں کثرت سے تنقید کی جاتی ہے اور پچھلی دہائیوں سے ملک میں ایک جماعتی نظام حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ناقدین اس بات کی مذمت کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کا جبر بڑھ رہا ہے اور موجودہ صدر شی جن پنگ زیادہ طاقت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور آزادیوں پر پابندی بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چین کے قیام کی 74ویں سالگرہ کے موقع پر صدر شی نے یقین دلایا تھا کہ چین کا مستقبل روشن ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی کے کس طرح ملک تمام پہلوؤںسے غربت سے خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی آزادی کو 77سال مکمل ہو چکے ہیں اور آج تک ہم اپنے پڑوسی ملک سے کچھ نہ سیکھ سکے۔ حالانکہ پاکستان کو اللہ نے ہر طرح کی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جہاں دنیا میں شدید غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ایتھوپیا نائجیریا اور جمہوریہ کانگو اور ہیٹی جیسے ممالک سے پاکستان کو ملایا جا رہا ہے۔ یہ پانچ ممالک کثیر جہتی غربت میں زندگی گزارنے والے دنیا کے 1.1بلین افراد میں سے تقریبا نصف ہیں۔ اقوام متحدہ کی کثیر جہتی غربت انڈیکس اشارے استعمال کرتا ہے۔ جیسا کہ رہائش صفائی ستھرائی بجلی کھانا پکانے کا ایندھن غذائیت اور اسکول میں حاضری تک رسائی پاکستان میں غربت کی شرح کئی عوامل کی وجہ سے بڑھ رہی ہے جن میں معاشی چیلنجز شامل ہیں ۔ پاکستان کی معیشت برسوں سے تنزلی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی اور غریبوں پر دباؤ ہے ۔آلودگی جنگلات کی کٹائی بڑھتی ہوئی غربت میں معاون ہیں۔ پاکستان غریب عوامی انفراسٹرکچر اور مناسب گورننس کی کمی کا شکار ہے۔ اب بھی وقت ہے حکومت پاکستان کو چین کے تجربے سے کچھ سیکھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ آخر ہم کہاں کھڑے ہیں؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں