آئین میں ترمیم کا کھیل
شیئر کریں
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں خود اپنے تیار کردہ آئیں میں کئی ایسی ترمیمات کی تھیں جن کے پیچھے وسیع اتفاقِ رائے موجود نہیں تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1970ء کے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان پر مشتمل ارکان کو ہی مکمل قومی اسمبلی تسلیم کرلیاگیاتھا۔ اس اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو بلا شرکتِ غیرے دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، اگر بھٹو مرحوم چاہتے تو اپنی مرضی کا دستور منظور کرا سکتے تھے لیکن انہوں نے آئین سازی کے لیے وسیع تر اتفاقِ رائے کی اہمیت کا احساس کیا اور 1973 کا دستور تمام پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ صلاح مشورے کے نتیجے میں منظور کیا گیا۔ اسے ایک قومی دستاویز کی حیثیت حاصل ہو گئی، اسے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے کئی سال تک معطل تو رکھا، اُس میں من مانی ترمیمات بھی کیں لیکن اسے منسوخ کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی۔ آئین سازی کی مشق میں مبتلا ہو کر پاکستان دولخت ہو چکا تھا، اس لیے آئین کی حفاظت پر قوم کمر بستہ رہی اور اب تک ہے۔ 1973کا دستور پاکستان کے اتحاد اور سا لمیت کی سب سے بڑی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ آئین کے نفاذ کے بعد بھٹو مرحوم نے کئی ترامیم منظور کرائیں’ ان میں سے اکثر کو اپوزیشن جماعتوں نے قبول نہیں کیا اور ان کے خلاف احتجاج کرتی رہیں۔ ایک ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس صاحبان کی مدتِ ملازمت4 سال مقرر کر دی گئی۔جس کے تحت یہ طے پایاکہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والا چیف جسٹس اگر ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائیں تو بھی چیف جسٹس کے طور پر 4 سال پورے ہونے تک وہ اپنے منصب پر فائز رہ سکتے تھے۔ اگر ریٹائرمنٹ کی تاریخ آنے سے پہلے اُن کے 4 سال پورے ہو جائیں تو وہ سینئر ترین جج کے طور پر ملازمت جاری رکھنے کا حق رکھتے تھے۔ اُس ترمیم کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال منصب چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے کیونکہ اُن کے 4 سال پورے ہو چکے تھے۔ انہوں نے سینئر جج کے طور پر کام جاری رکھنے کو اپنے وقار کے منافی جانا’ سو استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان ریٹائرمنٹ کی تاریخ آنے کے باوجود ریٹائر نہیں ہوئے کیونکہ بطور چیف جسٹس اُن کے 4سال مکمل نہیں ہوئے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لانے نافذ ہوتے ہی اس آئینی ترمیم کو منسوخ کر دیاحالانکہ اُن کے پاس اِس کا کوئی حق یا اختیار نہیں تھا، جسٹس یعقوب علی خان گھر بھجوا دیے گئے تو سینئر ترین چیف جسٹس شیخ انوار الحق نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لا کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو سپریم کورٹ نے ملٹری کونسل کو آئین میں ترمیم کا اختیار اس لیے دیا کہ نئے چیف جسٹس کو منصب چھوڑنا نہ پڑے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شیخ انوار الحق کی تقرری اور جسٹس یعقوب علی خان کی ریٹائرمنٹ پر خطِ تنسیخ پھر جاتا۔
ان مثالوں سے ثابت ہوتاہے کہ آئین میں کسی بھی ترمیم کے دور رس اثرات ہوتے ہیں لیکن بہرطور آئین میں ترامیم کی ضرورت رہتی ہے۔اس سے قبل آئینِ پاکستان میں 25 بار ترمیم ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ضرورت پڑنے پر ترمیم ہوتی رہے گی۔ گزشتہ ماہ سے آئین میں 26ویں ترمیم کا معاملہ زیر بحث تھااور اس ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش جاری تھی۔ 16 ستمبر کو 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر حکومت کو قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا پڑا تھا۔ بسیار کوششوں کے باوجود آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری موخر کر دی گئی۔ اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے اور ترمیمی نکات پر مشاورت کے لیے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔ اس دوران حکومتی اتحاد مولانا فضل الرحمن سمیت اپوزیشن کو منانے کے لیے تگ و دو کرتا رہا۔ بالآخر گزشتہ دنوں حکومت اپنی کوششوں میں کامیاب رہی۔ پیپلز پارٹی’ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا۔ اس طرح یہ کشمکش ختم ہوگئی تھا اس کشمکش کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو کئی دفعہ ناک رگڑنا پڑی اور جن مولانا فضل الرحمان کو انھوں نے بیکار محض سمجھ کر نظر انداز کردیاتھا دن مین کئی کئی مرتبہ ان کے در پر حاضری دینا پڑی اور اس بل کو مولانا کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے نئے آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں ‘آئینی ڈویژن’ کے الفاظ کو ”آئینی بینچ’’ سے تبدیل کیا گیا،اور فوجی عدالتوں کے قیام کے شق بھی حذف کرناپڑی ۔ ان ترامیم کے بعد اب ججز کی تعداد کا تعین جوڈیشل کمیشن کرے گا’ چاروں صوبوں کی ممکنہ حد تک مساوی نمائندگی ہو گی۔ مسودے میں دہری شہریت والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کی ترمیم خارج کر دی گئی ہے’ منحرف رکن کے ووٹ سے متعلق تجویز واپس لے لی گئی ہے’ سپریم کورٹ کے ججز کی عمر کی حد 65 سال برقرار کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال ہو گی’ چیف جسٹس کی عمر 65 سال ہونے پر3سال سے پہلے ہی سبکدوشی ہو جائے گی’ آئینی بینچ کے سوا سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جورسڈکشن’ سوموٹو مقدمات’ آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہو گا۔ سوموٹو’ اوریجنل جورسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسزکی سماعت اور فیصلہ آئینی بینچ کا 5 رکنی بینچ کرے گا’ آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرے گا‘ سماعت کے لیے تمام آئینی بینچ 3 سینئر ترین جج تشکیل دیں گے ’آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آنے والے سپریم کورٹ میں زیرالتوا کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہو جائیں گی۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہو گی۔ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے جبکہ4 سینئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون’ اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں4 اراکینِ پارلیمنٹ بھی ہوں گے جن میں سے 2 قومی اسمبلی اور 2سینیٹ سے لیے جائیں گے۔ یہ چاروں ارکان حکومت اور اپوزیشن سے ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کریں گے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔ مجوزہ ترمیم کے تحت حکومت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق چار میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت صدر مملکت’ کابینہ اور وزیراعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے تحت پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار کیا جائے گا۔ تاہم پارٹی سربراہ اس کے بعد کارروائی کا مجاز ہو گا۔
آئین میں کسی بھی ترمیم کے دور رس اثرات ہوتے ہیں لیکن بہرطور آئین میں ترامیم کی ضرورت رہتی ہے۔ اس سے قبل آئینِ پاکستان میں 25 بار ترمیم ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ضرورت پڑنے پر ترمیم ہوتی رہے گی۔ گزشتہ ماہ سے آئین میں 26ویں ترمیم کا معاملہ زیر بحث تھا۔ اس ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش جاری تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ مقصد محض منصور علی شاہ کا راستہ روکنا ہے تاکہ کسی مبینہ طورپر پسندیدہ جج کو یہ منصب سونپا جاسکے،حکومت کے یہ مقاصد اب ڈھکے چھپے نہیں رہے اور اب ریڑھی والے بھی اس بات کو سمجھ رہے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کررہے ہیں کہ حکومت کے مقاصد کیا ہیں اور ہمارے لیڈرانِ کرام اس ناٹک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
اب عام آدمی بھی برملا یہ کہتا نظر آتا ہے کہ منصور علی شاہ سے ان کو ڈر ہے کہ وہ حکومت کا آلہ کار نہیں بنیں گے اور آئینی اصولوں پر ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ آج کے حالات میں سب سے ناپسندیدہ روش یہی ہے اور یہی فکر ہے کہ منصور علی شاہ اصولوں کے کچھ زیادہ ہی پاسدار بنے ہوئے ہیں۔ ایک تو ابھی تک سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کو’ کیا حکومت اور کیا الیکشن کمیشن’ ہضم نہیں کر پا رہے۔ فیصلہ یہ تھا کہ جو آزاد نشستوں پر پی ٹی آئی کے ممبران منتخب ہوئے ہیں’ پی ٹی آئی کے ممبر ہی سمجھے جائیں گے۔ اتنی سی بات ہے’ سادہ سی’ لیکن اگلوں کے گلے میں یہ فیصلہ پھنسا ہوا ہے۔ نہ اُگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توسیع کی بات تو چل نہ سکی لیکن حکومتی جماعتیں اسی خواہش میں مری جا رہی ہیں کہ منصور علی شاہ جی کو آگے نہیں آنے دینا۔ مطلب یہ کہ یہ سارا میلہ منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کیلئے لگ رہا ہے۔ کیونکہ فارم 47 پر کھڑی حکومت کو یہ ڈرکھائے جا رہا ہے کہ وہ آئے تو پتہ نہیں الیکشن کا کیاکریں گے اور پتہ نہیں کون کون سے اور فیصلے سنا دیں گے۔(ن) لیگ ویسے ہی کانچ کے پیروں پر کھڑی ہے۔ کیا وفاق اورکیا پنجاب’ جو کچھ اُسے ملا ہے تحفتاً ملا ہے۔ سہاروں کے بغیر یہ حکومتیں چل نہیں سکتیں نہ قائم رہ سکتی ہیں۔ محترم قاضی فائز عیسیٰ جا رہے ہیں اور اُن کے جانے سے عدلیہ کا سہارا بھی نہیں رہے گا۔ اوپر سے جسٹس منصور علی شاہ آ گئے تو یوں سمجھا جائے کہ وفاقی حکومت اورالیکشن کمیشن دونوں کیلئے سخت جھٹکوں والا زلزلہ آ جائے گا۔ اسی ڈر سے تمام ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں کہ کسی طرح کم از کم ان کا راستہ روکا جا سکے۔یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی اور خود مسلم لیگی حلقے بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ اس نمائشی حکومت میں رہتے ہوئے بھی (ن) لیگ عملی طور پر پنجاب سے فارغ ہو چکی ہے۔ نواز شریف کو بھی پتہ ہے کہ اُن کی لیڈری کے دن گنے جاچکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی میٹنگوں میں زبردستی بیٹھ جاتے ہیں پر پَلّے کوئی چیز رہی نہیں۔ پیپلزپارٹی کا مسئلہ البتہ مختلف ہے۔ اُن کی نظریں مستقبل پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ وقت کب آئے گاجب بلاول زرداری اس ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ اس مقصد کے پورا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قیدی نمبر 804 سلاخوں کے پیچھے رہے۔ اور یہ سلاخوں والی بات تب ہی قائم رہ سکتی ہے جب اعلیٰ عدلیہ آپ کی ہمنوا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔