میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انسانوں نے اپنی تباہی کا سامان کر لیا!

انسانوں نے اپنی تباہی کا سامان کر لیا!

ویب ڈیسک
پیر, ۲ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جدوجہد کے نتیجے میں انسانوں نے اپنی تباہی کا سامان کر لیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مثال یہ ہے کہ ہیروشیما میں ہونے والے ایٹمی دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے جس میں 80ہزار سے ایک لاکھ سب سے زیادہ قابل اعتماد اعداد و شمار کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ دسمبر 1945 کے آخر تک تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے جبکہ اگست 1945 میں ہیروشیما پر بمباری نے شہر کی 92 فیصد عمارتوں کو تباہ یا نقصان پہنچایا جس میں تقریبا 63 فیصد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ بمباری سے بچ جانے والوں میں کینسر اور دائمی بیماری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی آئی اے ای کے مطابق جرمنی کو نکال کر فی الحال 31ممالک میں جوہری توانائی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی بجلی کا تقریبا 10 فیصد جوہری توانائی پر مشتمل ہے۔ 2011میں جاپان کے فوکوشیما جوہری ری ایکٹر کی تباہی کے نتیجے میں اس صنعت کو شدید دھچکا لگا تھا اور بہت سے ری ایکٹرز حفاظتی خدشات کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔ چین نے اپنے ایک بڑے ری ایکٹر کی تعمیر کے منصوبے پر عمل درآمد سست کر دیا ہے جبکہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ نے جوہری توانائی کا اصول مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔اٹلی نے توانائی کا منصوبہ ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چرنوبل حادثہ تاریخ کی بدترین جوہری تباہی تھی۔ روس کے یوکرین پر حملے اور یورپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ثاپاور رسیا پلانٹ پر قبضے کے بعد سے کچھ حلقوں میں جوہری حفاظت کے حوالے سے خدشات ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں۔ آئی اے ای اے کی پیش گوئی کے مطابق 2050 تک عالمی جوہری تنصیبات کی تعداد ُگنی ہو جائے گی۔
یوکرین کے خلاف روسی جنگ نے دنیا بھر کے ممالک میں توانائی کے عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔ امریکہ 92 جوہری ری ایکٹر کے ساتھ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی نیوکلیئر طاقت ہے لیکن یہ ری ایکٹرز بہت زیادہ پرانے ہیں اور ان کی اوسط عمر 42 سال ہے جبکہ صرف دو نئے ریکٹرز زیر تعمیر ہیں۔ فرانس کے پاس اوسطا ً37 سال کی عمر کے 56ری ایکٹرز ہیں ۔فرانس نے فی کس جوہری توانائی کا سب سے زیادہ تناسب استعمال کرتا ہے ۔ ابتدائی طور پر جوہری توانائی پر انحصار کم کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اب وہ 2035اور 2037کے درمیان چھ سے 14 نئے ری ایکٹرز کوا سٹریم پر لانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ برطانیہ کے پاس نو جوہری ریکٹرز ہیں جن میں سے بیشتر اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب ہیں اور حکومت 2050 تک 8نئے ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس کوشش کو بھی بڑی تحقیق اور بڑھتے ہوئے اخراجات نے گھیر لیا ہے۔ برطانیہ کا واحد زیر تعمیر ری ایکٹر بنکل پوائنٹ سی بھی طے شدہ بجٹ اور تکمیل کے وقت سے کئی اوپر جا چکا ہے ۔
آج سب سے زیادہ فعال سول جوہری طاقتوں میں چین اور روس شامل ہیں ۔چین اپنی مقامی مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اور روس برآمدات کے لیے فعال ہے۔ ورلڈ نیوکلیئر انڈسٹری اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں دنیا بھر میں شروع کیے گئے 25 تعمیراتی منصوبوں میں سے تمام یا تو چین میں واقع ہیں یا پھر انہیں روسی جوہری صنعت کا تعاون حاصل ہے ۔دستیاب ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس اب 57ری ایکٹرز ہیں۔ بیجنگ روسی امریکی اور کینیڈین ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے لیکن اس نے اپنی توجہ ملکی سطح پرواقع منصوبوں یا پاکستان کے ساتھ شراکت داری پر رکھی ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی منڈی پر روس کا غلبہ ہے ۔ماسکو جن 25 ری ایکٹرز کی تعمیر میں 20کی دہائی سے شامل ہے، ان میں سے صرف پانچ خود روس میں ہیں جبکہ باقی بنگلہ دیش ،بیلاروس، چین، بھارت، ایران، سلوواکیا ،ترکی اور مصر میں ہیں ۔یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کے تناظر میں دوسرے ممالک جوہری توانائی میں نئی دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ بیلجیم نے 2003 میں جوہری طاقت کو مرحلہ وار ختم کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔ تاہم اب وہ اس منصوبے کی تکمیل ایک دہائی یعنی 2035تک موخر کر رہا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے آئی اے ای اے نے پیشگوئی کی ہے کہ 2050تک دنیا بھر میں جوہری توانائی کی تنصیبات دگنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایسا ہونے میں بہت سے چیلنج درپیش ہیں ۔ان میں ریگولیٹری اور صنعتی ہم آہنگی اور جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے میں پیش رفت شامل ہے۔ دوسرے ممالک جیسے نیوزی لینڈ اخراجات اورحفاظتی خطرات کی وجہ سے جوہری توانائی کے سخت مخالف ہیں اور 27ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں اس بات پر گہری تقسیم ہے کہ آیا اسے اس سند کی حمایت کرنی چاہیے یا نہیں ۔2011 میں آنے والے زلزلے اور سونامی سے فوکو شیما جوہری پاور پلانٹ شدید متاثر ہوا تھا۔ جاپان میں مقامی وقت کے مطابق دو بج کر 46منٹ اور بین الاقوامی وقت کے مطابق پانچ بج کر 40 منٹ پرفوکوشیما کی سوگ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ 2011میں عین اسی وقت ری ایکٹر سکیل پر9 کی شدت کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سونامی لہروں نے شمال مشرقی جاپان کو تباہ کر دیا تھا۔ ریکارڈ شدہ تاریخ کے اس واقعہ کو چوتھا طاقتور ترین زلزلہ قرار دیا جاتا ہے۔ 11مارچ کو ٹی وی فوٹیج میں سونا می میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والے لوگوں کو پھول چڑھاتے، دعائیں مانگتے اور تعظیم سے جھکتے ہوئے دیکھا گیا۔ جاپان کا ایک شدید متاثر ہونے والا شہر کیسینوما پورے کا پورا زمین بوس ہو گیا تھا اور اس ناگہانی آفت کے بعد وہاں سے قریب ایک لاکھ 65 ہزار شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تھے ۔بعد ازاں اس علاقے کے جوہری پلانٹس کے آس پاس کے علاقوں کو تابکاری کے اثرات سے پاک کرنے اور رہائشی علاقوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اس علاقے کے بہت سے رہائشیوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مارچ 2011زلزلے اور سونامی کے بعد فوکو شیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے 500 گنا زیادہ تھی۔ اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ۔جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5ارب این 177ارب یورو کے اخراجات آئے جبکہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔ جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکو شیما کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے 50 ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد 20گنا بڑھ گئی ہے۔ رواں سال کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں100 12ایٹمی وار ہیڈ ہیں جبکہ امریکہ اور روس کے پاس دنیا کے تقریبا 90 فیصد ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ اس سے دنیا کو پانچ مرتبہ تباہ کیا جا سکتا ہے ۔اس کے باوجود ہتھیاروں کی دوڑ زوروں پر جاری ہے ۔ایٹمی ہتھیاروں کا حصول دنیا کے کئی ممالک کا بنیادی ٹارگٹ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہیروشیما کی تباہی سے دنیا نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔انسانوں نے اپنی تباہی کا سامان ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں خود کر رکھا ہے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں