تھر اور چولستان ! موت کے کنویں
شیئر کریں
مائی بھاگی کا تھر اورچولستان دونوں گرمیوں میں موت کے کنویں بن جاتے ہیں،پینے کا پانی دور دور تک نہیں ملتا، ذمہ داران حکومتی ادارے بالخصوص تھر اور چولستان کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیاں بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے چونکہ کاغذوں کا پیٹ بھر دیا ہے اس لیے شاید ان علاقوں کے بھوک اور پانی کی کمی سے تڑپتے لوگوں کا پیٹ بھی بھر جائے گا حکومت نے دونوں علاقوں میں اعلانوں اور فائلوں کی حد تک توسبھی سہولتیں مہیا کردی ہیں،کنویں بھی کھود چکے ہیں، تھر میں تو مٹھی کے مقام پر اعلیٰ ہسپتال بھی بنا ڈالا ہے مگر حالت یہ ہے کہ دوائیاں تو کیا نصیب ہوں گی سفارشی بھرتیوں سے رکھے گئے ڈاکٹرز ہی موجود نہیں ہوتے کہ وہ جعلی حاضریاں لگا کر کام چلاتے ہیں حالانکہ ان کی تنخواہیں بھی دیگر شہری علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں ۔گیسٹروکی بیماری سے ہی تین سال میں صرف تھر کے اندر بچوں کی 2500سے زائد اموات ہوچکی ہیں ایک نوزائیدہ نو نہال صرف پانی کی کمی یا گندے آلودہ پانی کی وجہ سے اور خوراک کی کمی کے سبب اور بالآخر ڈاکٹروں کی عدم توجہی سے اگلی دنیا کو سدھار جائے تو یہ قتل سے بھی بدترین جرم ہے مگر کسی بیورو کریٹ یا ذمہ دار کواب تک نہ تختہ دار پر کھینچا گیاہے ۔نیب بیچاری تو کیا احتساب کری گی کہ شاید ایسی اموات جو کوتاہی سے سرزد ہوجائیں ان کے لیے نیب کے کاغذوں میں شاید کوئی احتسابی قانون ہی نہیںہوگا۔علاقہ تھر اور چولستان میں درجہ حرارت بھی تپتی ریت کے بے آب و گیاہ ٹیلوں پر اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے جسے حکومتی کار پرداز چھپاتے اور بیان نہیں کرتے۔ 1990ءسے لیکر آج تک صرف چولستان میں جانوروں کی7500اور انسانوں کی 342سے زائد اموات ہوچکی ہیں کہ پیاسا آدمی جب راستہ بھول جاتا ہے تو وہاں بھول بھلیوں میں گھومتا رہتا ہے اور کڑی دھوپ جب چمکتی ہے تو دور سے پانی ہی پانی نظر آتاہے جسے سُراب کا نام دیا جاتا ہے ۔آدمی ادھر ادھر کو بھاگتا ہے مگر پانی نہیں ملتا بالآخر وہ تڑپ تڑپ کر اپنی جان آفریں خدا کے حضور پیش کردیتا ہے ۔حضرت عمر فاروق ؓکا وہ فرمان کہ ایک کتا بھی دریا کے کنارے بھوکا پیاسا مر گیا تو میں خدا کو آخرت میں کیا جواب دوں گا۔
ہونٹ پیاسے رہے حوصلے تھک گئے عمر صحرا ہوئی
ہم نے پانی کے دھوکے میں ریت میں کشتیاں ڈال دیں
آئین پاکستان کی دفعہ 38/Dہرفرد کو خوراک، رہائش، روزگار،تعلیم، علاج، لباس، عزت اور جان و مال کی حفاظت مہیا کرنے کا حکومت وقت کو پابند بناتی ہے مگر70سال سے مقتدر لٹیروں نے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر رکھا ہے۔یہی نام نہاد جغادری لیڈرز اگر ووٹ لیکر آپ کو بھول جاتے ہیں تو آپ انہیں کیوں یاد کرتے ہیں؟جس دن اس ملک کے پسماندہ طبقات کے لوگوں نے ظالم وڈیروں اور سود خور سرمایہ داروں کوجوتے کی نوک پر ٹھکرانے کی جرا¿ت کرلی تو طاغوتی شیطانی سیاست رخت سفر باندھ لے گی۔ ہر بر سر اقتدار ٹولے نے اپنی من پسند سکیموں پر کھربوں روپے اور وہ بھی سوددر سود کے تحت قرضے لیکر اجاڑد یے ہیں مگر عوامی مفاد اور لوگوں کے ذاتی مسائل پر معمولی رقوم بھی خرچ کرنے سے یہ سبھی معذور رہے ہیں۔اب بھی تقریباً چھ ماہ کے اندر 64بچے تھر کے ریگستانوں میں اور 41بچے چولستان میں پانی اور غذا کی کمی سے ہلاک ہوچکے ہیں۔متعلقہ ڈاکٹروں کی رائے میں مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں جس سے بچے بھی کمزور اور قبل ازوقت پیدا ہوتے ہیں ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے اس طرح غذائی قلتوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور خشک سالی کی وجہ سے ننھے بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ واضح قتل ہیںاور حکمرانوں و ذمہ داران کے خلاف قتل کے مقدمات کا اندراج ہی اس کا صحیح حل ہے۔ چنداقتداری و بیورو کریٹ ٹولے کے افراد بچوں کی ہلاکتوں پر تختہ دار پر جھول گئے ہوتے تو میٹرو منصوبے، گرین بسیں اور ٹرینیں چلانے اور ان میں کروڑوں روپے کے کک بیکس لینے والے تھر اور چولستان کے غریب عوام اور بچوں کے لیے غذاﺅں اور صاف پانی کا بندو بست کرنے پر خود بخود مجبور ہو جائیں گے کہ”ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تِگڑیاں دا64″بچوں کی ہلاکتیں تو اعدادو شمار میں آگئی ہیں مگر جو غریبوں کے بچے پانی اور غذائی قلتوںکی وجہ سے کٹیا نما گھروں میں پڑے ہلاک ہوئے ہیں ان کی تعداد بھی ہر سال ڈیڑھ ہزار سے کم نہیں ہوتی۔مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔انہیں شہروں خصوصاً لاہور کی سڑکوں پر رنگ برنگے قمقمے لگانے وغیرہ جیسے کاموں سے ابھی فرصت نہیںاور اب پاناما لیکس کے بارے میں سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ کا اعلان ہوجانے کے بعدساٹھ د ن میں انہیں اپنے بچاﺅ کے لیے سخت مراحل سے گزرنا ہے اس لیے بھوک اور پانی سے نڈھال بچوں کا حکمرانوں میں سے کوئی بھی واقف تک بھی نہیں بنے گا۔اور سندھ میں موجود تھر بھی زرداری اینڈ کو کی لاپراوہی کا مسلسل شکار رہے گا۔اس طرح غریب معصوم بلکتے تڑپتے بچوں کا کون خیال رکھے گا۔چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرڈالنے کے دعوے دار حکمران اب17گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں تاکہ ووٹروں کو انہیں ووٹ ڈالنے کا پورا پورا” مزہ”آسکے اور گرمی سے نڈھال اور مچھروں سے ستائے اور گھروں میں بیٹھے” حکمران زندہ باد ” کہتے رہیں۔تھر میں غذا کی قلت کے سبب ہسپتال میں انہی دنوں پانچ بچوں کی ہلاکت پر چیف جسٹس آف پاکستان نے نوٹس لیکر36گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی تھی، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ بہر حال قوم معصوم بچوں اور نئے نئے نکلتے شگوفوں، پھولوں کو مسل ڈالنے پر ایسے مجرموں کو بڑے چوراہوں پر لٹکتا دیکھنا چاہتی ہے ۔گاﺅں پاڑہ کالونی اور گاﺅں پنج پڑاکی حالت زار پر تو لوگ خون کے آنسو رو رہے ہیںٍ۔ عوام حق بجانب ہے کہ چولستان اور تھر کے مسائل کے حل کے لیے اور وہاں پانی اور خوارک کی کمی دور کرنے کے لیے جو اربوں روپے ہر سال مختص کیے جاتے ہیں وہ جن جن کے پیٹوں میں سانپوں کی طرح گھس جاتے ہیں ان پیٹوں کی تلاشی بذریعہ خنجر وتلوار لی جانی چاہیے ۔