امریکہ کے تابوت میں آخری کیل
شیئر کریں
جاوید محمود
امریکہ میں صدارتی امیدوار کی دوڑ زوروں پر جاری ہے۔ صدر بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 27جون کی رات اٹپلانٹا میں عام انتخاب کے پہلے مرحلے میں آمنے سامنے ہوں گے ۔صدارتی مہم کے دوران قیا س آرائیاں جاری ہیں کہ وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے والا اگلا شخص کون ہوگا؟ امریکہ میں 1956 کے بعد سے پہلی بار صدارتی انتخابات کا دوبارہ مقابلہ ہوگا جو بائیڈن میں عہدہ سنبھالنے والے سب سے پرانے صدر کے درمیان ایک بے مثال جنگ ہے اور پہلی بار سزا پانے والے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صدر جو بائڈن ہفتے میں پانچ دن ورزش اور ویٹ لفٹنگ کے ساتھ ساتھ گولف کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ جو بائڈن اپنی 81ویںسالگرہ منا رہے ہیں۔ اگلے سال کے انتخابات جیتنے کی صورت میں وہ 86 سال کی عمر تک عہدے پر فائض رہ سکتے ہیں جو بائیڈن ابھی زندہ ہیں اور دوبارہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔یہ پیغام اکتوبر کے اخر میں امریکی صدر کی سیکنڈ ان کمانڈ کملہ ہیرس کی جانب سے تھا یہ ایک رپورٹر کے اس سوال کا اچھا جواب نہیں تھا۔ اگر بائیڈن کو کچھ ہو گیا اور وہ انتخاب لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر کیا ہوگا لیکن اس طرح کے سوالات نے ،جن کا محور بائیڈن کی عمر ہے ، نہ صرف 2020میں منتخب ہونے کے بعد سے ان کا تعاقب کیا بلکہ 2024 میں اگلے صدارتی انتخابات سے قبل بھی ان کا پیچھا کر رہے ہیں اور یہ غیر متوقع نہیں ہے۔
جب بائیڈن گزشتہ سال نومبر میں 80 برس کے ہوئے تو وہ امریکی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے پہلے 80سالہ شخص بن گئے تھے ۔ یہ امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں اور اگر وہ اوول آفس میں دوسری مدت پوری کرتے ہیں تو وہ اپنی مدت ختم ہونے پر 86 برس کے ہو جائیں گے ۔لہٰذا یہ شاید حیرت کی بات نہیں ہے کہ 77فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن دوبارہ انتخاب لڑنے کے لیے بہت بوڑھے ہیں اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں امریکہ میں صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہے لیکن ایک بنیادی حد ہے اگر اپ 35 سال سے کم عمر ہیں تو اپ آزاد دنیا کے رہنما نہیں بن سکتے۔ شاید اس وجہ سے کہ آئین سازوں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جس پر پہنچنے کے لیے اپ کو کچھ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ اس کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے لیکن زیادہ تر امریکی صدور اپنی صحت اور طبعی ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں جو بائیڈن کا ریکارڈ آخری بار فروری میں پریس کے لیے جاری کیا گیا تھا ان کے ذاتی معالج کیوں کارنر نے ان کی طبعی ہسٹری کا جائزہ لیا اور ایک تفصیلی جسمانی معائنہ کیا اور ساتھ ہی ان کے اس پاس کے لوگوں کے ساتھ انٹرویو میں حاصل کردہ معلومات کچھ یہ ہیں۔ جو بائیڈن چھ فٹ لمبے ہیں ۔ان کا وزن 178 پاؤنڈ ہے۔ کانٹیکٹ لینسز پہنتے ہیں ۔تمباکو نوشی یا شراب نہیں پیتے اور ہفتے میں پانچ دن ورزش کرتے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے ذاتی ٹرینر کی مدد لیتے ہیں ۔سائیکل چلاتے ہیں اور ورزش والی مشین استعمال کرتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ دوپہر کا کھانا سوپ اور سلاد ہے۔ چند سال قبل خاتون اول جل بائیڈن نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے کھانے میں کیچپ مونگ پھلی کا مکھن اور جام شامل ہیں اور رات کے کھانے میں انہیں پاستہ اور ٹماٹر کی چٹنی پسند ہے۔ جو بائیڈن کے جسمانی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے اور نوٹ کیا گیا ہے کہ 2022 کے موسم گرما میں بائیڈن کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد سے سانس کے انفیکشن میں مبتلا ہیں۔ ان کے ڈاکٹر کے مطابق دل کی بے ترتیب دھڑکن ہونے کے ساتھ ساتھ ہائی کولیسٹرول ہے جو زیادہ چربی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ 2021میں فریکچر کے بعد ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ پاؤں میں گھٹیا ہونے کے باوجود بائڈن کا تفصیلی اعصابی معائنہ کیا گیا تھا جس کے نتائج میں کسی اور اعصابی خرابی کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ڈاکٹر کے مطابق اس کے علاوہ بھی ان کے ساتھ کئی بیماریاں لگی ہیں جو بائیڈن کی انتخابی مہم کی ٹیم انہیں عوامی مقامات پر جانے سے روکنے کے مشن پر ہے۔ انہوں نے ایئر فورس اکیڈمی میں گرنے کے بعد اپنے سفر کے دوران جوگر پہننا شروع کر دیے تھے اور ہوائی جہاز کے کم بلند دروازے تک چھوٹی سیڑھیاں استعمال کرتے ہوئے ایئر فورس ون میں سفر شروع کر دیا تھا۔ ان کے ذاتی ڈاکٹر کے مطابق بائیڈن میں دماغی سست روی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں جبکہ قدامت پسند میگزین نیشن ریویو کے لیے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں صدر کی ذہنی صحت کے آزادانہ طبی جائزہ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن 100سال کی عمر تک اسی طرح کے جسمانی افعال کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے بہترین طبی دیکھ بھال تک رسائی حاصل کر رکھی ہے۔ ظاہر ہے موجودہ صورتحال میں اس وقت بائیڈن کی عمر پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے بانسبت ان متحدہ الزامات کے جن کا ٹرمپ کو سامنا ہے جو بائڈن سے صرف تین سال چھوٹے ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ پر جارجیا کے وہ الزامات بھی شامل ہیں جو 2020کے انتخابات میں ان کی شکست کو بدلنے کی مبینہ کوششوں وفاقی انتخابات میں تخریب کاری کا مقدمہ اور نیو یارک سول فراڈ کے مقدمے سے پیدا ہوئے ہیں جو ان کی کاروباری سلطنت کے لیے خطرہ ہیں ۔اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا کہ امریکہ میں صدارتی امیدواروں کا فقدان ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر جو بائیڈن دوبارہ منتخب ہوئے تو ہمیں خدشہ ہے کہ وہ عہدے پر ہی انتقال کر جائیں گے لیکن اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب بھی ہوئے تو خدشہ ہے کہ ہماری جمہوریت دم توڑ جائے گی۔ اس وقت امریکہ کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر حالات ایسے ہی رہے تو امریکہ دیوالیے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں مبصرین بائڈن کے لباس پہننے کے انداز کو ٹرمپ کے انداز سے زیادہ بہتر قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ موسم گرما میں ایک فیشن بلاگر سے ایک میگزین کے لیے ان کے فیشن کا جائزہ لینے کے لیے کہا گیا اور انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ واشنگٹن میں زیادہ تر لوگوں کے مقابلے میں بہتر لباس پہنے ہوئے ہیں جو شاید ان کی عمر اور مناسب لباس پہننے کے تجربے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بائیڈن ان چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جو اپنی جیکٹ کی جیب میں رومال پہنتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے سوٹ کے ساتھ پینی لوفربھی پہنتے ہیں۔ اگرچہ وہ کمزور نظر آرہے ہیں شاید بائیڈن کو ریگن کا فقرہ ادھار لینا چاہیے جو انہوں نے 1984میں اپنے ڈیموکریٹک ریف والٹن مون لے کے خلاف صدارتی مباحثے میں استعمال کیا تھا عمر اور اس کے عہدے کے لیے ذہنی طور پر فٹ ہونے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ریگن جو اس وقت تاریخ کے معمر ترین صدر نے کہا تھا میں سیاسی مقاصد کے لیے اپنے مخالف کی جوانی اور نا تجربہ کاری کا فائدہ نہیں اٹھاؤں گا۔ امریکہ تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے، معاشی طور پر خستہ حالی کا شکار ہے۔ ان حالات میں صدارتی امیدوار جو بائیڈن کا یا ٹرمپ کا منتخب ہونا امریکہ کے تابوت میں آخری کیل کا کردار ادا کرے گا۔