خط کامیابی کا زینہ نہیں!
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
پاک امریکہ تعلقات گزشتہ چند برسوں سے زیادہ خوشگوار نہیں رہے لیکن ایسا پہلی بارنہیں ہورہا،بلکہ ماضی میں ایک سے زائد بار ہو چکا ہے جب بھی خطے میں کوئی انہونی ہوتی اور پاکستان کی ضرورت محسوس ہوتی تو دونوں ممالک سب کچھ بُھلا دیتے اورپھرپاکستان بھاری امداد کا حقدار قرارہوجاتا مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔ انہونی کابھی دوردورتک کوئی امکان نہیں رہا ۔ماضی میں ضرورت کے وقت امریکہ دستِ تعاون بڑھاتاجسے پاکستانی قیادت بڑی بے چینی سے تھام لیتی اور پھر نوازشات ہونے لگتیں۔ اقتصادی اور تجارتی فوائد حاصل کیے اور اربوں ڈالر کی دفاعی امداد بھی حاصل کی۔ اِس دوران نہ صرف وفودکا آنا جانا لگا رہتا بلکہ ٹیلی فونک رابطہ بھی رہتا جب ضرورت ختم ہوجاتی تو باہمی تعلقات سرد مہری کا شکارہوجاتے ۔پاکستانی قیادت تو اب بھی چشم براہ ہے لیکن بدلے حالات کی وجہ سے امریکہ کے لیے اب پاکستان سے زیادہ بھارت اہم ہو گیا ہے۔ کیونکہ امریکی ایماپرعملی طورپر نہ سہی زبانی کلامی چین کوللکارنے لگا ہے، اسی لیے آجکل امریکی دلچسپی کا محورہے۔
2018 میں عمران خان نے جب وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو وائٹ ہائوس نے مبارکباد کا رسمی فون کرنا یا چند سطورپر مبنی خط بھیجنے کی بھی زحمت نہ کی جس سے وہ خاصے مایوس ہوئے اور امریکہ مخالف بیانیہ بنالیا لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کوخط لکھ کر امریکی صدر جو بائیڈن نے نہ صرف منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے بلکہ عالمی اور علاقائی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کاعزم ظاہر کیاہے اور دنیا کی سلامتی کے لیے پاک امریکہ شراکت داری کو اہم قرار دیا ہے مگر ایک خط کو دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی کے لیے سنگِ میل قرار دینا درست نہیں، یہ سفارتی رکھ رکھائو ہے، اسی لیے کامیابی کا زینہ نہیں کہہ سکتے ۔
امریکی صدر جوبائیڈن کاخط پاکستان سے پہلا سفارتی رابطہ ہے جسے زیادہ طمانیت کا باعث نہیں کہہ سکتے کیونکہ کسی ملک سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کی غزہ پر جاری وحشیانہ بمباری کے تناظر میں آجکل امریکہ خاص طورپر مسلم ممالک سے رابطے میں ہے لیکن دوسرے ممالک کے دوروں یا ٹیلی فونک روابط کے تناظرمیں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کو لکھا گیا خط تعلقات کی کم ترین سطح کا ایسا سفارتی پیغام ہے جس پر خوش ہوناخوش فہمی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ موجودہ حکومت پر امریکی اعتماد کا عکاس نہیں۔ یہ توہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ دنیا کی واحد سُپر طاقت پاکستان کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کررہی ہے۔ ایک خط پر خوش ہونا اور فوری طورپر جواب لکھ کر ذرائع ابلاغ پر تشہیر کرنادانشمندی نہیں ۔یہ رویہ پاکستانی قیادت کی بے چینی ظاہرکرتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی امریکی نتظامیہ کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اسی لیے واشنگٹن کی اسلام آباد سے متعلق پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا اوروہ مسلسل نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن ہے ۔
پاکستانی قیادت چین پربُری طرح فریفتہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں چین نے بھارت سے زیادہ پاکستان پر اعتبارکیا ہے۔ دونوں ممالک سرحدی تنازعات بھی گفت و شنید سے حل کر چکے۔ 1965اور1971کی پاک بھارت جنگوں میں چین نے پاکستان کی نہ صرف کُھل کر اخلاقی اور سفارتی مدد کی بلکہ عملی طورپر بھی ساتھ دیا جس پر پاکستانی حکومت اور عوام چین کو ایک سچا اور حقیقی خیرخواہ تصور کرتی ہے۔ اب جبکہ امریکہ نظرانداز کررہا ہے اِن حالات میں چین کا بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرناپاکستان کی کمزور معاشی حالت کی وجہ سے فیاضی سمجھا جارہا ہے۔ مزیدبراں اقتصادی راہداری کے معاہدوں نے دونوں ممالک کو مزید قریب کر دیا ہے لیکن یہ سرمایہ کاری اورمعاہدے جتنے خوشمنا اور فیاضانہ سمجھے جارہے ہیں ویسے ہیں نہیں ۔اگر تجارتی اعدادوشمار پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو صورتحال بہت حیران کُن ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان کا چین کے ساتھ سالانہ تجارتی خسارہ دو سے اڑھائی ارب ڈالر کے درمیان ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے لیکن امریکہ جسے ہم شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سے فائدہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تجارتی نفع پانچ ارب ڈالر کے قریب ہے ۔اسی لیے ماہرین متفق ہیں کہ نئی منڈیاں تلاش کرنے تک امریکہ سے بگاڑمول لینا مناسب نہیں ۔نیز ایک بڑی طاقت ہونے کے ناطے نہ صرف اُس سے تعلقات رکھنا مجبوری ہیں بلکہ پاکستان کے پاس زیادہ ترامریکی ساختہ ہتھیار اور اسلحہ ہے جن کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے بھی امریکی تکنیکی تعاون ناگزیرہے۔ افسوس کہ حکومت کی اِس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ چین کوناراض کیے بغیر امریکہ سے وابستہ تجارتی مفادات کا تحفظ ناممکن ہرگز نہیں۔
عام انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو معاشی یا خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہنوز کوئی واضح یاٹھوس پالیسی نظرنہیں آتی۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ ا یوانوں میں اکثریت کے باوجودبظاہر کمزور ہے۔ وفاقی کابینہ میں بھی یکجہتی کا فقدان ہے۔ اسی لیے دوست ممالک سیاسی کی بجائے عسکری قیادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔اگر شہباز شریف بطور منتخب وزیراعظم اپنا تاثر بہتر نہیں بناتے تو سیاسی خسارے کا شکار ہوسکتے ہیں عزت و تکریم اور اہمیت سے محرومی منتخب حکومت کے لیے سودمند نہیں ۔
امریکیوں کو بخوبی ادراک ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ پاکستان کی حکومت کا بھی چین پر انحصار ہے۔ یہ جغرافیائی حالات کا تقاضا ہے اِس کے باوجود امریکہ کو سخت ناپسند ہے لیکن جس طرح ایران سے گیس درآمد معاہدے پر عملدرآمد کو دبائو کے ذریعے رکوا دیا گیا چین کے حوالے سے پاکستان پر ایسا کوئی دبائو آتاہے تو صورتحال یکسر مختلف ہوسکتی ہے۔ ایسے اندازے باہمی تعلقات میں زوال کی بڑی وجہ ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ایک طاقتور وفاقی حکومت ہی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لاسکتی ہے۔ بھارت کی وجہ سے پاکستان میں چین سرمایہ کاری بڑھا کر اسلام آبادکی مجبوری بنتا جارہا ہے۔ اس دوران حکومت چین کی تمام تر نارواشرائط تسلیم کرنے پر مجبورہے ۔امریکی صدر کا خط موجودہ حکومت کی کامیابی نہیں لیکن حکومت ایسا ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بیانیہ تب تک عوام میں پزیرائی حاصل نہیں کر سکتا جب تک امریکی امداد بحال اور دنوں ممالک میںاعتماد سازی کی فضا قائم نہیں ہوجاتی جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اسی لیے کامیابی کا تاثر دینا حقائق کی نفی کے مترادف ہے۔
صدرجوبائیڈن نے اپنے خط میں پاکستان سے تعلیم ،صحت اور اقتصادی ترقی میں تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے مذکورہ شعبوں میں تعلقات کو قائم رکھا جائے گا۔ سفارتی آداب میں کڑوی کسیلی بات بھی نرم ترین الفاظ میں بیان کی جاتی ہے ۔صدرکا خط بھی سفارتی آداب میں لپٹاایسا پیغام ہے جس کے الفاظ سے کچھ پوشیدہ نہیں رہا۔ مقامِ اطمنان یہ ہے کہ حکومتی سرمہری کے باوجود پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان اگر امریکہ سے تعلقات میں مزید رکاوٹیں نہ آنے دے اور موجودہ تجارتی حجم قائم رکھے تویہ معاشی حوالے سے ملک کے لیے بہتر ہو گا ۔کیا کوئی اِس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے دوست ممالک سے پاکستان کو ہر برس محتاط اندازے کے مطابق اٹھائیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ترسیلات زر ہوتی ہیں لیکن چین یا اُس کے کسی حامی ملک کا ایسی رقوم میں کوئی حصہ نہیں۔ اسی لیے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ زیادہ جذباتی ہونے کے بجائے ہمیں تجارتی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ چین کی بھی تو ایسی ہی پالیسی ہے ۔وہ ایک طرف بھارت سے تجارت بڑھا رہا ہے تو تائیوان سے اختلافی امور کوبھی تجارت پر حاوی نہیں ہونے دے رہا۔ پاکستانی قیادت بھی اگرخوش فہمیوں سے نکل کر حکمت و تدبر سے کام لے تو ذرائع آمدن بڑھا ئے جا سکتے اورملک کو معاشی طورپر مستحکم بنایاجاسکتا ہے۔ ایک خط تب تک کامیابی کا زینہ نہیں بن سکتا جب تک عملی طورپر کوشش نہ کی جائے لیکن حکومتی ترجیحات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کاایجنڈارکھتی ہے۔