گیس کی عدم فراہمی پر سندھ کا احتجاج،وزیر اعظم وفاق کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں
شیئر کریں
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز سندھ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صوبے کو گیس کی فراہمی میں بہتری نہ آنے کی صورت میں سندھ سے جانے والی گیس پائپ لائن بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم 100 میگا واٹ کے بجلی کے ایک منصوبے کو چلانے کے لیے گیس مانگ رہے ہیں، لیکن گزشتہ 4 ماہ سے کمپنی ہمیں گیس نہیں دے رہی۔انہوںنے ایوان کوبتایا کہ ‘ہم نوری آباد میں ایک پاور پلانٹ لگا رہے ہیں، ابتدا میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (حیسکو) کے ساتھ معاہدہ ہوا اور انھیں بجلی خریدنی تھی، لیکن بعدازاں حیسکو نے یہ کہہ کر جواب دے دیا کہ ہمارے پاس اضافی پاور موجود ہے، لہذا ہمیں بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔جس کے بعد مجبور ہوکر ہم نے کے الیکٹرک سے معاہدہ کیا اور اس کے لیے لائن بھی بچھائی گئی، لیکن پچھلے 4 مہینے سے سوئی سدرن گیس کمپنی اس معاہدے پر دستخط کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہی ہے۔انہوں نے ایوان کو بتایاکہ میری چیئرمین سوئی سدرن گیس کمپنی سے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں صبح 11 بجے تک انتظار کروں گا، میرے آنے سے پہلے انہوں نے محض خانہ پری کرتے ہوئے وہی شرائط دوبارہ بھیج دیں، جو ہمیں منظور نہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے سوئی سدرن گیس کمپنی اور وفاق کو خبردار کیا کہ اگر اس ہفتے کے دوران گیس فراہم نہ کی گئی تو ہم گیس لائن بند کردیں گے، کراچی میں ان کے دفاتر اپنی تحویل میں لیں گے اور خود انھیں چلائیں گے۔انہوں نے کہا کہ سندھ 70 فیصد گیس پیدا کرتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت اْس صوبے کو زیادہ گیس ملنی چاہیے، جہاں وہ پیدا ہوتی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ روزوزیراعظم کی جانب سے پنجاب میں گیس لائن کی توسیع کے 97 منصوبے شروع کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے نام ایک خط میں منصوبوں کو ’بے اطمینانی’ اور قومی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی وجہ قرار دیا تھا۔وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے خط میں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاق نے صوبہ پنجاب میں 37 ارب روپے کے گیس کے منصوبوں کا آغاز کیاہے، جبکہ اس قسم کے منصوبوں میں توسیع پر وفاقی حکومت خود ہی پابندی عائد کرچکی ہے۔خط میں مؤقف اختیار کیا گیاتھا کہ گیس نیٹ ورک کی پنجاب میں توسیع آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے، پنجاب ملک کی کل 3 فیصد گیس پیدا اور 42 فیصد گیس استعمال کرتا ہے۔مراد علی شاہ نے اپنے خط میںشکایت کی تھی کہ قدرتی گیس کی تقسیم کار سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) سندھ میں دیہی و شہری علاقوں میں گیس دینے سے انکاری ہے۔وزیراعظم نے گیس لائن میں توسیع کے 97 منصوبوں کی منظوری دی تھی، جن میں سے بیشتر منصوبے صوبہ پنجاب کے لیے تھے، جبکہ صرف 20 منصوبے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے لیے تھے ۔
دیانتداری کے ساتھ دیکھا جائے تو سندھ میں صرف100 میگاواٹ کابجلی گھر چلانے کے لیے گیس دینے سے انکار اور اس کے لیے سیکورٹی وغیرہ جیسے عذر تراشنا کسی طور بھی نہ صرف یہ کہ مناسب نہیں ہے، بلکہ آئین کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق قدرتی گیس کی ضروریات میں ترجیح‘ اس صوبے کو حاصل ہے جہاں قدرتی گیس کا ویل ہیڈ موجود ہو، جبکہ وزیراعظم کی جانب سے منظور کیے گئے 97 منصوبوں میں سے سب سے مہنگا 3.2 ارب روپے کا منصوبہ ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کے حلقے این اے 18 کے لیے منظور کیا گیا۔2.4 ارب روپے مالیت کا دوسرا مہنگا توسیعی منصوبہ وزیراعظم نواز شریف کے داماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر کے حلقے این اے 21، جبکہ تیسرا بابر نواز خان کے حلقے این اے 19 کے لیے منظور کیا گیا۔
پاکستان کے 3 صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا قدرتی گیس کی تقسیم کے فارمولے میں مجوزہ تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ نیا فارمولا پنجاب کے گھریلو صارفین کو تو فائدہ پہنچائے گا، لیکن اس سے دیگر صوبوں میں صنعتی اور کمرشل صارفین متاثر ہوں گے۔وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت گزشتہ دنوںہونے والے اجلاس میں تینوں صوبوں نے موقف اپنایا تھاکہ جو گیس وہ پیدا کرتے ہیں اس پر کنٹرول رکھنا ان کا آئینی حق ہے اور وفاق اس کی خلاف ورزی کررہا ہے۔وفاقی وزیر نے مشترکہ مفادات کونسل سے مجوزہ تبدیلی کی منظوری لینے سے قبل اس اجلاس کا انعقاد اس لیے کیا تھا تاکہ دیگر صوبوں کو بھی اس پر اعتماد میں لیا جاسکے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی ہم آہنگی ریاض حسین پیرزادہ، وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری اور سندھ اور خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا وفاق پر تنقید کرتا رہا ہے کہ وفاق یومیہ 10 کروڑ کیوبک فٹ گیس استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔وزارت پیٹرولیم نے تجویز پیش کی تھی کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس سے گھریلو صارفین کی ضروریات پوری ہونے کے بعد اضافی گیس کی تقسیم کا صوابدیدی اختیار صوبوں کو دے دینا چاہیے۔یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) جس کی مقدار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے گی، اسے بھی صوبوں کے ساتھ بانٹا جاسکتا ہے تاکہ ان کی کمرشل، انڈسٹریل اور سی این جی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔اجلاس میں شریک دیگر 3 صوبوں نے یہی موقف اختیار کیا کہ وہ کسی بھی صورت میں آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت حاصل حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔تینوں صوبے اس بات پر متفق ہیں کہ گیس کی تقسیم میں تبدیلی صرف پنجاب کے صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی جارہی ہے۔ملک میں پیدا ہونے والی مجموعی قدرتی گیس میں سب سے زیادہ 68 فیصد حصہ سندھ کا ہے، جبکہ بلوچستان کا 15 فیصد، پنجاب کا 5 فیصد اور خیبر پختونخوا کا 12 فیصد ہے۔تاہم پنجاب سب سے زیادہ 45 فیصد، سندھ 42 فیصد، خیبر پختونخوا 7 فیصد اور بلوچستان صرف 6 فیصد گیس استعمال کرتا ہے۔
وزارت پیٹرولیم کا موقف ہے کہ مشترکہ مفادات کمیٹی کو چاہیے کہ وہ نئے انتظامات کو اپنائے تاکہ تمام گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے اور ساتھ ہی گیس کی قلت، جو اب ہر صوبے کا مسئلہ بن چکا ہے، کا مستقل حل نکالا جاسکے۔موجودہ نظام کے تحت صوبائی حکومت گیس کے نئے ذخائر سے نکلنے والی گیس صوبائی حدود کے اندر موجود صنعتی، کمرشل اور سی این جی سیکٹرز کو فراہم کرسکتی ہے، چاہے دوسرے صوبے میں گیس کی شدید قلت ہی کیوں نہ ہو۔
وزارت پیٹرولیم اور سندھ حکومت کے درمیان سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی کے حوالے سے اختلافات ہیں،ایسی صورت میں وزیر اعظم کی جانب سے صرف اپنے دامادکیپٹن ر صفدر ، اپنے من پسند ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی اور بعض دیگر لوگوں کو انتخابی فائدہ پہنچانے کے لیے صوبوں کی حق تلفی کسی طورپر بھی قومی مفاد میں نہیں ہے او ر اس سے وفاق کو مستحکم رکھنے کی کوششوں کونقصان پہنچے گا اور اس مرحلے پر وفاق کو نقصان پہنچنے کاواضح مطلب پاکستان کو نقصان پہنچانے کے مترادف تصور کیاجائے گا ۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف محض اپنے رشتہ داروں،ساتھیوں اور من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسے اقدامات سے گریز کرنے کی کوشش کریں گے جن سے وفاق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اورسندھ ، بلوچستان اور پختونخوا کے اعتراضات اور شکایات کا ازالہ کرنے پر توجہ دیں گے۔