آغا شورش کاشمیری:شخصیت کے چند شگفتہ اور نہفتہ پہلو
شیئر کریں
حافظ شفیق الرحمن
برس ہا برس میرے معنوی و روحانی مرشد حضرت آغا شورش کاشمیری کا وتیرہ رہا کہ وہ ہر شام ملاقات کے لیے جناب احسان دانش سے ملنے ان کے گھر انارکلی جاتے۔جناب احسان دانش ان کے استاد تھے۔ زندگی کے آخری برسوں تک ان کا یہ معمول رہا کہ جب بھی کوئی نظم لکھتے، اسے ٹیلی فون پر اپنے استاد کو سناتے۔ وہ کہا کرتے۔۔۔ انسان تمام عمر سیکھتا ہے۔ بڑے سے بڑے شاعر اور تخلیق کار کے کلام میں بھی اصلاح کی گنجائش رہتی ہے۔۔۔ یہ غالباً نومبر 1973ء کی بات ہے۔ میں مولانا ظفر علی خان کی برسی کے لیے برکت علی اسلامیہ ہال میں منعقدہ ایک اجلاس میں اکابرین کی تقاریر سننے کے لیے پہنچا۔ اس اجلاس کی صدارت نوابزادہ نصراللہ خان کر رہے تھے جبکہ مہمان مقررین کی فہرست میں آغا شورش کاشمیری کا نام نامی بھی شامل تھا۔ آج بھی یہ منظر میرے حافظے کی لوح پر نقش ہے کہ آغا صاحب جب تقریر کے لیے آئے تو انہوں نے مولانا ظفر علی خان کے حضور عقید ت و ارادت کا خراج غایت درجہ خطیبانہ اور ادیبانہ انداز میں پیش کیا۔ تقریر کے بہائو کے دوران انہوں نے جب یہ جملہ کہا کہ’مولانا ظفر علی خان حقہ کے رسیا اور چائے کے شوقی تھے’۔ پھر ایک لحظہ کے لیے رک گئے۔ا سٹیج پر تشریف فرما جنابِ احسان دانش کی جانب مڑ کر پیچھے دیکھااور عاجزا نہ لہجے اور شاگردانہ انداز میں پوچھا: ”استاد! میری اصلاح کر دو، ابھی تقریر کی سیلانی و طغیانی اور خطابت کی روانی میں یہ جملہ جومیں نے ادا کیا ہے کہ ‘مولانا چائے کے شوقی تھے’، کیا اس جملے میں شوقی کا لفظ میں نے درست اور برمحل استعمال کیا ہے یا مجھے چائے کے شوقین کہنا چاہیے تھا’۔ جنابِ احسان دانش مرحوم نے مسکراتے ہوئے کہا: ”آغا صاحب آپ نے موزوں لفظ استعمال کیا”۔ پھر آغا صاحب نے اپنا روئے سخن سامعین کی طرف کیا اور بتایا:”شعروادب میں اگر کسی ایک شخص کو میں الفاظ کا پارکھ اور جوہری سمجھتا ہوں تو”…. احسان دانش مرحوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”وہ جنا ب ِ احسان دانش ہیں، یہ وہ واحد ہستی ہے جو بچپن سے تا دم گفتگو میرے استاد ہیں،تادمِ آخراس منصب پر فروکش رہیں گے، میں آج بھی اپنے شاعرانہ کلام پر ان سے روزانہ کی بنیاد پر اصلاح لیتا ہوں،چٹان میں کسی بھی نظم کو شائع کرنے سے قبل ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کاماہرانہ، استاذانہ اور ناقدانہ جائزہ لیں۔جناب ِ احسان دانش کے علاوہ وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری،مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا غلام رسول مہر،حمید نظامی اور مولانا چراغ حسن حسرت کے ہاں بھی کشاں کشاں اور شاداں شاداں جاتے۔
پاکستان میں یوں تو بہت سے ادیب، شاعر، دانشور، اخبارات و جرائد کے مدیر اور مالکان ہمیشہ موجود رہے ہیں، لیکن آغا شورش کاشمیری کا نام جب ذہن میں آتا ہے تو ایک ایسے ادیب، شاعر، صحافی، دانشور اور مدیر کی شبیہ پردۂ تصور پر جھلملاتی ہے، قدرت نے جس کے انگ انگ اور نس نس میں انسان دوستی، احباب نوازی اور عوام پروری یوں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی جس طرح آہوئے ختن کے نافے میں مشک۔ یہ درست ہے کہ آغا صاحب کے انتقال سے پاکستان ایک بڑے دبنگ صحافی، نڈر خطیب، بے باک مدیر، حق گو دانشور اور کامل الفن ادیب سے محروم ہو گیا، لیکن کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ ایک ایسے ہمدردِ خلائق انسان تھے کہ جو کسی بھی دوست یا ملنے والے کو تکلیف میں دیکھتے تو یوں تڑپ اٹھتے جیسے کسی شیرخوار بچے کو بچھو نے ڈس لیا ہو۔ ایسے میں ان کا اضطراب دیدنی ہوتا۔
میں یہ کہنے میں کسی قسم کا کوئی تامل محسوس نہیں کرتا کہ آغا صاحب قلم قبیلے کے وہ سردار تھے جو اپنے قبیلے کے کسی بھی فرد کو اذیت میں مبتلا دیکھتے یا اس کے بارے میں یہ اطلاع ملتی کہ فلاں شاعر یا صحافی کسی مسئلے سے دوچار ہے تو وہ انتہائی رازداری اور خاموشی سے اس کی مدد کرتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ گوالمنڈی تھانے کے اہلکاروں نے دورانِ گشت رات کے پچھلے پہر لکشمی چوک کے رائونڈ ابائو ٹ میں وطن عزیز کے دو نامور شاعروں حبیب جالب اور مشیر کاظمی کو ڈگمگاتے، لڑکھڑاتے اور چکر لگاتے دیکھا۔پولیس اہلکاران اپنی گاڑی سے نیچے اترے، ان کے پاس پہنچے، چال کی لڑکھڑاہٹ اور زبان کی لکنت سے انہیں یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ دونوں دخترِانگور سے زائد از ضرورت متمتع ہونے کے بعد توازن کھو بیٹھے ہیں۔ پولیس اہلکاران نے ‘حسبِ تربیت’ دونوں کی تواضع زناٹے دار طمانچوں اور ٹھسے دار گھونسوں سے کی۔ ڈنڈاڈولی کیا اور پولیس وین کے پچھلے حصے میں سیٹوں کے درمیان بے دردی سے پھینک دیا۔ سیدھاتھانے لے گئے اور حوالات میں بند کر دیا۔ حوالات میں اول اول وہ پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دیتے رہے اور آخر آخر نیند نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ صبح آٹھ نو بجے کا عمل تھا کہ گوالمنڈی کا ایک شہری حوالات میں محبوس اپنے کسی عزیز سے ملنے آیا۔ اس کی نگاہ پڑی تو دیکھا کہ شاعر عوام حبیب جالب اور خوشنوا شاعر مشیر کاظمی حوالات کے ننگے فرش پر بے سدھ پڑے ہیں اور ان کے چہرے سوجے ہوئے ہیں۔اسے بہت دکھ ہوا۔ معاً ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے ذہن میں آیا کہ ساڑھے نو بج چکے ہیں، کیوں ناں د فتر چٹان میکلوڈ روڈ جائو ں اور آغا شورش کاشمیری کو اطلاع دوں کہ ان کے دو شاعردوست گوالمنڈی تھانے کی حوالات میں ہیں اور پولیس نے انہیں روایتی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ آغا صاحب کے پاس پہنچے۔ آغا صاحب نے اپنے منیجر صلاح الدین کو آواز دی۔ صلاح الدین جائو اور تانگہ لے کر آئو ، گوالمنڈی تھانے تک جانا ہے۔ راستے میں کوچوان کو ڈانٹتے اور ڈپٹتے رہے کہ گھوڑے کو کچھ کھلایا پلایا بھی کرو تاکہ یہ تیز دوڑ سکے۔ اسی گپ شپ کے دوران تھانہ آگیا۔ آغا صاحب تا نگے سے اترے اور تھانے کی حدود میں داخل ہوتے ہی پولیس والوں کو بے نقط سنانا شروع کر دیں۔ یک دم ایس ایچ او سمیت تمام پولیس افسران و اہلکاران باہر نکل آئے۔ انہوں نے آغا صاحب کو جلال میں دیکھا تو ان کے رنگ فق ہوگئے۔ آغا صاحب نے غصے میں پوچھا حبیب جالب اورمشیر کاظمی کے خلاف آپ نے کوئی ایف آئی آر کاٹی ہے، ایس ایچ او نے نفی میں جواب دیا۔ آغا صاحب نے کہا تو آپ نے پھر انہیں کس جرم میں حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے، انہیں باہر نکالو، ماتحت عملہ متحرک ہوا، حوالات کا تالا کھولا، حبیب جالب اور مشیر کاظمی کو اٹھایا اور کہا آپ سوئے پڑے ہیں اور آپ کو لینے کے لیے آغا شورش کاشمیری تشریف لا ئے ہیں اور ان کے غیظ و غضب نے تھانے کے در و دیوار اور ہمارے اعصاب پر لرزہ طاری کر رکھا ہے، جلدی باہر نکلو۔ دونوں باہر آئے تو سامنے آغا صاحب کھڑے تھے۔ آغا صاحب نے جونہی ان کے چہروں کی طرف دیکھا تو وہ طمانچوں اور تھپڑوں کی اندھادھند ضربوں کی وجہ سے پھول کر کپا ہو چکے تھے۔ یہ دیکھتے ہی آغا صاحب کا پارہ حرارت کی آخری بلندیوں کو چھونے لگا۔ حبیب جالب اور مشیرکاظمی کی جانب اشارہ کیا۔ ایس ایچ او سے پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کتنے بڑے لوگ ہیں، تم نے محض ان کی ظاہری وضع قطع دیکھی اور انہیں لاوارث اور غریب جان کر ان کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایس ایچ او صاحب بہادر! ذرا قریب آئو اور میرے سامنے اُن پولیس اہلکاروں کو پیش کرو تاکہ میں بھی ان کے چہروں کو ایسے ہی تختہ مشق بنائو ں جیسے انہوں نے ان شاعروں کو بنایا۔ ایس ایچ او نے آغا صاحب کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا آغا صاحب! میں آپ سے اُن تمام اہلکاروں کی جانب سے اِس زیادتی پر معافی مانگتا ہوں، آپ انہیں لے جائیں۔ ان پڑھ اہل کاروں کو کیا معلوم تھا کہ یہ نامی گرامی شاعر ہیں، لیکن آغا صاحب انہوں نے بھی تو شراب پی کر بیچ بازار ادھم مچا رکھا تھا۔ آغا صاحب نے کہا ایس ایچ او سنو یہ غریب شاعر تو صرف شراب پیتے ہیں جبکہ اس ملک کے افسران اور حکمران عوام کا خون پینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انہیں بھی تو پکڑو۔ بہرحال ایس ایچ او کی منت سماجت نے کام دکھایا۔ آغا صاحب کا غصہ فروہوا۔ اس نے آغا صاحب، حبیب جالب اور مشیرکاظمی کو دعوت دی کہ اس کے ساتھ ناشتہ کریں، لیکن آغا صاحب نے کہا ”باہر تانگہ کھڑا ہے اورمیں نے دفتر پہنچ کر اپنے ان دوستوں کو ناشتہ بھی کروانا ہے۔ وہ حبیب جالب اور مشیر کاظمی کو لے کر دفتر چٹان پہنچے۔ انہیں ناشتہ کرایا۔ منیجر صلاح الدین کو آواز دی اور کہا ان کو گھر تک پہنچا کر آئو اور یہ ‘امانت’ ان کے گھروالوں کو خاموشی سے دے آنا۔ انہیں مت دینا، ان کا کیا ہے، یہ جا کر پھر بوتل اٹھا لائیں گے۔
مجھے ”خبریں” کے مدیراعلیٰ ضیاشاہد نے بتایا کہ 1973ء کے اوائل میں جب اردو ڈائجسٹ کا کارکن صحافی تھا تو ایک مضمون کی اشاعت پر جہاں اس کے پرنٹر اور مدیر کو پولیس نے گرفتار کیا، وہاں مجھے بھی اٹھایا اور ضابطے کی کارروائی کے بعد کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا۔ آغا صاحب کو جب گرفتاری کی اطلاع ملی تو وہ گاڑی پر کوٹ لکھپت جیل آئے، مجھے سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں بلایا اور کہا کہ’تو کس چکر میں جیل میں بیٹھا ہے، تیری بھٹو سے کونسی لڑائی ہے، ادارے کے بڑوں کے تو مفادات ہوں گے، وہ اپنی اس قید کو کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں سے کیش بھی کروا لیں گے، تمہیں کیا ملے گا، میں نے آغا صاحب سے کہا کہ میں ایسی کوئی درخواست دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس پر انہوں نے مجھے وہ سنائیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ اس موقع پر آغا صاحب میرے لیے بہت سارا پھل بھی لے کر آئے تھے”۔
بہ حیثیت ایک کارکن صحافی میں جاننا چاہتا ہوں کہ آج ملک کے طول و عرض میں کسی چھوٹے بڑے میڈیا ہائوس یا جریدے اور اخبار کا ایک بھی مالک ایسا ہے جو کسی دوسرے جریدے کے کارکن صحافی بارے جب یہ سنے کہ وہ جیل میں ہے تو اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اس سے ملاقات کے لیے پہنچ جائے۔ میں پورے وثوق اور تیقن سے کہتا ہوں کہ میرے اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں۔