میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
منی پور میں جاری تشدد کے لیے ذمہ دار کون؟

منی پور میں جاری تشدد کے لیے ذمہ دار کون؟

ویب ڈیسک
منگل, ۵ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

اترپردیش اور ہماچل پردیش میں مخالفین کے ارکان اسمبلی کی مدد سے جب بی جے پی ایوان بالا کا انتخاب جیت رہی تھی تو منی پور کی راجدھانی امپھال میں ایک اے ایس پی کوان کے گھرسے اغواء کرلیاگیا کیونکہ انہوں نے ایک میتئی تنظیم کے ٦ لوگوں کو گاڑی چوری کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ امیت ماینگ کو اغواء کاروں سے بچانے میں پولیس ناکام ہوگئی تو چھڑانے کے لیے فوج کی مدد لینی پڑی۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے ؟ نہیں لیکن مودی جی کی ڈبل انجن سرکار میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ منی پور فساد کے دس ماہ بعد بھی وہاں کے حالات کا اندازہ پچھلے دو ہفتوں کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ پچھلے سال ستمبر میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا جب تھنگ تھانگ کوم نامی ہندوستانی فوج کے سپاہی کو جو امپھال میں اپنے گھر پر چھٹی پر آیا تھا اس کے گھر سے اغوا کرلیا گیا۔ بدقسمتی سے اگلے دن اغوا کاروں نے اسے اس کے گھر سے 14 کلومیٹر دور گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 41 سالہ تھانگ تھینگ کوم ڈیفنس سروس کمپنی (DSC) میں کام کر رہا تھاجو منی پور کے لیماکھونگ میں آرمی سروس کور کی کمپنی 302 کا حصہ ہے ۔ کسی ریاست میں اگر پولیس افسر اور فوجی بھی محفوظ نہ ہوں تو عام لوگوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ؟ وہ بیچارے تو مجبورِ محض ہیں۔
تشدد کے واقعات کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ 15فروی کی رات چندا چور میں 300-400 لوگوں نے ایس پی اور ڈی سی کے دفتر پر حملہ کردیا۔ جوابی کاروائی میں دوا فراد مارے گئے اور چالیس زخمی ہوگئے ۔ 13فروی کو امپھال مشرق میں فسادیوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرکے اپنے ساتھ 6 اے کے 47،4 کاربائن ، 3 رائفل 2 ایل ایم جی اور کچھ خودکار اسلحہ لوٹ لیا اوراس کی ویڈیو بھی سامنے آگئی ۔ جوابی کاروائی میں ایک کی موت اور ٣ زخمی ہوئے ۔ اسی دن وہاں میتئی اور کوکی سماج کے درمیان ٹکراو میں ایک فردہلاک اور ٣ زخمی ہوئے ۔ 24 فروری کو مغربی امپھال میں ایک کالج کے باہر دھماکہ ہوا جس میں ایک آدمی مرگیا اور تین زخمی ہوگئے ۔ اس تشدد میں اب تک جملہ 200 لوگ ہلاک اور 1100 سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں ۔ اس تشدد نے 65 ہزار سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ اس پر قابو پانے کے لیے 6 ہزار معاملے درج کیے گئے اور 144 لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا مگر تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
منی پور کے اندر جاری و ساری اس تشدد کی بنیادی وجہ امپھال ہائی کورٹ ایک نہایت حساس معاملے میں ناعاقبت اندیش فیصلہ تھا۔ گزشتہ سال 27 مارچ (2023) کو مرکزی حکومت کے دباو میں اگر منی پور ہائی کورٹ نے اگر وہ غلطی نہیں کی ہوتی تو جان و مال کا ناقابلِ تلافی نقصان نہ ہوتا ۔ عدالتِ عالیہ نے اس وقت ریاستی حکومت کو ہدایت دے دی تھی کہ وہ میتئی قبیلے کو شیڈول ٹرائب (درج فہرست قبائل) کا درجہ دینے پر غور کرے ۔اس کے بعد سے شمال مشرقی ریاست میں ماحول کشیدہ ہو گیا تھا لیکن اب اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ جسٹس گولمی گفولشیلو کی بنچ نے اپنے سابقہ حکم سے اس متنازعہ پیراگراف کو ہٹا تے ہوئے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے موقف کے خلاف ہے ۔ منی پور ہائی کورٹ نے میتئی طبقے کو درج فہرست قبائل (ST) میں شامل کرنے کے اپنے 2023 کے حکم میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے ریاست میں ذات کی بنیاد پر بدامنی بڑھ سکتی ہے ، اس لیے وہ اپنے فیصلہ بدل رہی ہے ۔ منی پور کے اندر اکثریتی طبقہ یعنی میتئی قبیلے کو ریزرویشن دے کر اپنا ہمنوا بنانے کی خاطر جان بوجھ کر یہ تشدد بھڑکا نے کے لیے عدلیہ کو آلۂ کار بنایا گیا ۔اس کے نتیجے میں میتئی اور کوکی طبقے کے درمیان زبردست تشددپھوٹ پڑا اور 200 سے زائد لوگ مارے گئے ۔ عدالت کے اس فیصلے سے جو تشدد بھڑکااس کا دھواں ہنوز رہ رہ کر اٹھتا رہتا ہے جس کی مثال اوپر دی جاچکی ہے ۔
منی پور کی عمرانیات سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ منی پور کا 90فیصد علاقہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے ۔ وہاں ریاست کی 43 فیصد آبادی رہتی ہے ۔ یہ لوگ 33 تسلیم شدہ قبائل میں منقسم ہیں جن میں ناگا اور کوکی کونمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ یہ دونوں قبائل بنیادی طور پر عیسائی ہیں۔راجدھانی امپھال صوبے کے بالکل درمیان میں ہے ۔ یہ پوری ریاست کا صرف 10 فیصد علاقہ ہے مگر اس میں ریاست کی 57 فیصد آبادی رہتی ہے ۔ امپھال کی وادی میں میتئی کمیونٹی کی بڑی آبادی ہے جو زیادہ تر ہندو ہیں۔ منی پور کی کل آبادی میں ان کا حصہ تقریباً 53 فیصد ہے ۔ حکومت اور انتظامیہ پر انہیں کا قبضہ ہے ۔ میتئی لوگوں کو ریزرویشن دینے سے ریاست کے جملہ 90 فیصد آبادی ریزرویشن کے زمرے میں آجاتی ہے ۔ اس سے دیگر کمزور طبقات کا تحفظ ازخود ختم ہوجاتا ہے ۔ اس لیے مذکورہ فیصلے کے بعد پہاڑی پر واقع چورا چند پور ضلع سے کشیدگی شروع ہونا فطری عمل تھا۔
دارالحکومت امپھال سے تقریباً 63 کلومیٹر جنوب میں کوکی قبائل کے لوگوں نے 28 اپریل کو انڈیجینس ٹرائبل لیڈرس فورم(مقامی قبائلی رہنماوں کے وفاق) نے سرکاری اراضی سروے کے خلاف آٹھ گھنٹے کے احتجاجی بند کا اعلان کیا تھا۔ اسی وقت اگر ان کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی تو معاملہ آگے نہیں بڑھتا مگر اپنے سیاسی فائدے کی خاطر ڈبل انجن سرکار نے تشدد کی روک تھام کے بجائے اس کو ہوا دی اور میتئی سماج کے لوگوں کو بھڑکایا ۔ اس کے بعد پچھلے سال 3 مئی کو آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور (اے ٹی ایس یو ایم) نے قبائلیوں کا ‘اتحاد مارچ’ کا اہتمام کیا۔ یہ ریلی چوراچند پور کے علاقے توربنگ سے نکالی گئی ۔ اس کے خلاف حکومت کی پشت پناہی میں میتئی برادری نے کوکی سماج سبق سکھانے کی خاطر جو شرمناک فساد کیا اس سے پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ۔ اس فساد کے بعد ہزاروں لوگ کئی مہینوں تک غیر انسانی ماحول کے اندر کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردئیے گئے ۔ نفرت کا یہ عالم تھا خواتین کو برہنہ کرکے بدسلوکی کی ویڈیو بنائی گئی مگر مرکزی حکومت کو شرم نہیں آئی ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے تو ان شرمناک واقعات کا دیگر ریاستوں کے معمولی تشددسے موازنہ کرکے ہلکا کیا اورپھر کبھی بھی وہاں کا رخ کرنے کی جرأت نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ وہ پڑوسی ریاست تریپورہ بھی جانے کی ہمت نہیں کرسکے ۔ وزیر داخلہ ایک بار گئے تو متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کرکے لوٹ آئے لیکن یہ وعدہ کیا کہ پندرہ دن بعد پھر آئیں گے مگر وہ بھی ایک جملہ ثابت ہوا۔ ان کے دورے کو ٨ ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر انہوں نے بھی منی پور تو دور تریپورہ تک کا رخ نہیں کیا۔ حالات اس قدر دگرگوں ہوگئے کہ ماہِ اگست میں سپریم کورٹ کو منی پور تشدد سے جڑے سی بی آئی کے معاملات گوہاٹی ہائی کورٹ میں منتقل کرنے پڑے ۔ عدالتِ عظمیٰ نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ وہ ان معاملات کی تفتیش کیلئے مزید افسران کو مامور کرے ۔ گجرات فساد کے بعد بھی یہی ہوا تھا کہ جب مودی جی کی ریاستی حکومت کے انتظامی رکاوٹوں نے انصاف کی فراہمی کو دوبھر کردیا تو مقدمات ممبئی منتقل کیے گئے اور اسی لیے بلقیس بانو کو انصاف مل سکا ورنہ وہ ناممکن تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی عدل و انصاف کے حوالے سے بی جے پی کے چال ،چرتر اور چہرے میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اٹل جی نے جھوٹے منہ سہی راج دھرم کا پالن کرنے کا مشورہ دیا تھا مودی جی وہ بھی نہیں کرسکے ۔
منی پور کے معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیاڈی وائے چندرچوڈ کی قیادت والی بینچ نے کہا تھا کہ ملزمین کی ریمانڈ، عدالتی تحویل و توسیع اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کے حوالے سے عدالتی کارروائی گوہاٹی ہائی کورٹ میں آن لائن کی جائے ۔ ملزمین کی عدالتی تحویل اور ضمانت کے بعد منی پور بھیج دیا جائے ۔ بینچ نے سی بی آئی کی تفتیش سے جڑے متاثرین، گواہوں اور دیگر لوگوں کو اجازت دی تھی کہ اگر انہیں گوہاٹی ہائی کورٹ میں آن لائن شامل نہیں ہونا ہو تو وہ کورٹ میں بھی پیش ہو سکتے ہیں۔ ریاستی حکومت پر سپریم کورٹ کے عدم اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اس نے 21اگست کو منی پور تشدد کے متاثرین کی بحالی اور ریلیف پر نظر رکھنے کیلئے جسٹس گیتا متل کمیٹی مقرر کردی تھی اوروہ دس معاملات جن میں ٢ خواتین کی آبروریزی کا معاملہ بھی ( جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو بھی شامل تھا) مقامی پولیس لے کر سی بی آئی کو سونپ دیئے تھے ۔ اس کے باوجود بے حس مرکزی حکومت نے اپنے وزیر اعلیٰ سے نہ استعفیٰ لیا اور اسے برخواست کیا۔ یہ بی جے پی کی روایت ہے جسے نریندرمودی سے لے کر بیرین سنگھ تک برقرار رکھتے ہوئے موت کے سوداگروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا۔ منی پور میں امن قائم کرنا بی جے پی کی ذمہ داری توہے مگر اس پر فی الحال انتخاب کا جنون سوار ہے ۔ وہ حزب اختلاف کے ارکان کو خرید کر کرائے کے ٹٹووں سے اپنی طاقت بڑھا رہی ہے کیونکہ سنگھ کی شاکھاسے گھوڑوں نہیں خچر آتے ہیں۔ اس لیے سماجوادی پارٹی سے خریدے جانے والے ارکان اسمبلی کو رام بھگت کہا جاتا ہے حالانکہ ان لکشمی کے پجاریوں کو مال بھگت کہنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں