حالات مزید خراب ہو گئے!
شیئر کریں
عام انتخابات کے بعدملک کے حالات مزید خراب ہو گئے۔ سیاسی صورت حال بہت تشویشناک ہے نہ ہی کسی جماعت کو اتنی سیٹیں ملی ہیں کہ وہ کسی بھی دوسری جماعت یا ایک سے زائد جماعتوں کی مدد کے بغیر حکومت بنا سکے، اب تک تمام جماعتوں نے ایک ایک کر کے وفاق میں حکومت بنانے سے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ اب تک کے انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو کوئی بھی جماعت اس قابل نظر نہیں آتی کہ وہ حکومت بنائے اور ملک کو درپیش مشکلات سے نکالے۔ ملک کی تمام بڑی چھوٹی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ میدان میں ہیں۔ نہ یہ انتخابی نتائج کسی نے تسلیم کرنے ہیں نہ ہی اس بات کا امکان نظر آتاہے کہ دھاندلی کے الزامات پر ہونے والی تحقیقات کے بعد کوئی تحقیقات کو تسلیم کرنے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جائے گا۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں قیادت کے حوالے سے بہت ہی سنجیدہ بحران کا سامنا ہے۔ یہی وہ صورت حال جس کی وجہ سے ملک کا سنجیدہ طبقہ پرزور طریقے سے یہ کہہ رہاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو جو کہ تعداد میں سب سے زیادہ ہیں حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس صورت حال کا اندازہ لگالیا ہے اسی لئے اس نے برملا یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ وفاق میں حکومت بنانے کی دوڑ میں نہیں ہیں البتہ مسلم لیگ ن وفاق میں حکومت سازی کی طرف جاتی ہے تو پی پی پی ن لیگ کے امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے انہیں سپورٹ کرے گی۔ مسلم لیگ ن کے سنجیدہ حلقے میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ انہیں بھی حکومت سازی کے عمل سے دور رہنا چاہیے اوراطلاعات کے مطابق پارٹی کی نجی نشستوں میں اپنی اس رائے کا اظہار کررہے ہیں۔اس صورت حال سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت سکڑ رہی ہے۔پاکستان میں تقریباً ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا راگ الاپتی ہے۔ خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی ہے۔ عوام کے سامنے دی جانے والی قربانیوں کا بار بار تذکرہ کرتی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جمہوری اقدار کے دعویداران کھٹن راستوں پر قدم رکھے بغیر براہ راست جمہوریت کے چبوترے پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔فی الوقت پاکستان میں ”طلسماتی جمہوریت” ہے،جو موجود تو ہے مگر بظاہر نظر نہیں آتی۔ اس کے ثمرات سے عوام مستفید نہیں ہو رہے۔ جمہوریت خواہ کسی پیراہن میں پنہاں ہو جب تک اس میں عوام کی بالا دستی نہ ہو اسے کسی طور بھی جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اس نکتہ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے بھی ذیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر آتی ہے۔ اگر وہ مکالمے کی جانب آئیں، اختلافی نوٹ کو فوقیت دیں، ووٹروں کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ و مخلصانہ رویہ اپنائیں تو وطن عزیز میں جمہوریت جڑ پکڑ سکتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کم اور مجبوریت کے آثار زیادہ ہیں۔ جمہوریت پسند ممالک میں شفافیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جہاں سیاسی نمائندوں کی معلومات درج ہوتی ہیں کہ ان کے اثاثہ جات کتنے ہیں، وہ مراعات کتنی لے رہے ہیں وغیرہ۔ اس کے برعکس پاکستان میں ننگے پاؤں غربت سے پریشان حال اندرون سندھ کے باسی، بلوچستان میں پانی کے آدھے گلاس کو ترستے بیکس لوگ، خیبرپختونخوا میں آٹے کے ایک تھیلے کے حصول کے لیے گھنٹوں لائنوں میں لگنے والے مجبور عوام اور پنجاب میں غربت کی لکیر کو عبور کرتے خاندان۔ یہ لوگ کیا جانیں کہ الیکشن کی شفافیت کس بلا کا نام ہے۔ ماہرین سیاسیات نے تسلیم کیاہے کہ جس ملک میں غربت کے سبب ووٹروں کو اپنے سیاسی قائد کی کامل معلومات ہی نہ ہوں تو ان کے ووٹ کی وقعت جمہوری نہیں رہتی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مملکت خداداد میں آج بھی ذات برادری، فرقہ و لسانی بنیادوں پر لوگ ووٹ مانگتے ہیں اور پاکستانی عوام بھی بڑے دل جگرے کے مالک ہیں ان کے کھوکھلے نعروں پر ہمیشہ یقین کرکے انہیں ووٹ دے کر باعزت پارلیمنٹ میں پہنچا دیتے ہیں جن کی کارکردگی صفر ہوتی ہے جو میرٹ کے تحت کسی صورت کامیاب قرار نہیں دئیے جا سکتے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستانی عوام کسی بددیانت گورننس کو اپنی طاقت کے سرچشمے سے تخت ِحکومت سے اگر آؤٹ بھی کر دیں تو ان کے سامنے کوئی بہتر آپشن نہیں ہوتا لہٰذا وہ مجبوراً” وڈیروں،سرداروں،میروں اور سرمایہ داروں ”کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں گویا کہ کوئی سیاسی ”جونی چکر”ہو۔ یہ ہماری قومی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ملک میں الیکشن ہوجانے کے بعد بھی کوئی وفاق میں حکومت بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔اِن انتخابات کے نتیجے میں جو صورتحال ابھر کرسامنے آئی ہے کہ کوئی بڑی پارٹی وفاق میں اپنے طور پر حکومت بنانے کے قابل نہیں ہے۔ کسی ایک پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے۔کوئی سیاسی پارٹی کتنی ہی کوشش بھی کرلے تو اُسے پارلیمنٹ کے نصف ممبران کی حمایت مل جانا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے کانٹوں کا تاج سر پر رکھنے اور اپنے آخری وقت مزید بے عزتی کرانے کے بجائے اپنے چھوٹے بھائی کو قربانی کا بکرا بنا کر آگے کردیا،صرف نواز شریف ہی تینوں بڑی پارٹیاں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلزپارٹی کے جہاندیدہ رہنماحکومت بنانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس صورتحال کا بنیادی سبب یہ کہ سب پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ایک انتہائی مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں مانگے تانگے کی حکومت چلانا بہت ہی مشکل کام ہوگا۔ کوشش بھی کرلیں تو وہ چند مہینوں سے زیادہ حکومت نہیں چلاپائیں گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں پارٹیاں صوبائی حکومت لینے کو نہ صرف تیار ہیں بلکہ بے چین بھی ہوئے جا رہی ہیں۔سب نے اپنے اپنے وزیراعلیٰ کے ناموں کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔وفاق میں حکومت سازی سے کترانے کی بڑی وجہ ملک کو درپیش مالی اورمعاشی حالات بھی ہیں،جس نے بھی حکومت بنائی اسے3-4 سال تک بہت ہی کٹھن حالات کاسامنا ہوگا۔ جس طرح 10اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد بننے والی شہباز شریف کی عارضی حکومت کو ملک کوڈیفالٹ ہوجانے سے بچانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑے اورIMFکی سخت شرائط ماننی پڑیں اورجس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو اپنی رہی سہی ساکھ کو بھی داؤ پر لگانا پڑا وراس کا خمیازہ اُسے اس الیکشن میں بھی بھگتنا پڑا، اب کوئی بھی پارٹی یہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔مسلم لیگ ن کے اندر بہت سے لوگ وفاق میں حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ اپنی قیادت کو اس بات پرراضی کرنے کی کوششوں میں مسلسل سرگرداں ہیں،اگر بہت ہی مجبوری ہوگی اورمقتدر حلقوں کی جانب سے مکمل سپورٹ کی کوئی یقین دہانی کروائی گئی تو وہ یہ ذمے داری ایک بار پھراُٹھانے کو تیار ہوجائیں سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ اب کوئی بھی لگانے کوتیار نہیں ہے۔مسلم لیگ ن کے سنجیدہ حلقے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت سنبھالنے کے بجائے فوری عام انتخابات کرانے کے حامی تھے لیکن مبینہ طور پر نواز شریف کا حکم تھا کہ اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیا جائے اور ہر قیمت پر فوری حکومت سنبھالنے کی کوشش کی جائے اور حکومت سنبھالتے ہی ان تمام سنگین مقدمات میں کلین چٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 2022 میں یہ ذمے داری نہ لیتی تواس کے حق میں بہتر ہوتا۔اب جبکہ انتخابات ہوچکے ہیں تو نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کو اقتدار سنبھالنے کیلئے اسی لئے مجبور کررہے ہیں کہ کہیں آنے والی حکومت ان مقدمات کو دوبارہ نہ کھول دے جس میں وہ مبینہ طورپر مہربانوں کی مہربانی سے کلین چٹ حاصل کرچکے ہیں،اب صورت حال یہ کہ سب کو اپنی اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ کوئی بھی اپنی سیاست کو داؤپر لگا کر قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔آج ہماری سیاسی جماعتوں کی سیاست کاکڑا امتحان ہے۔ کون اس میں سرخروہوتا ہے یا کون اس میں ناکام ہوتاہے۔یہ وقت ہی بتائے گا۔ کچھ لوگ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید ملک میں دوبارہ الیکشن منعقد ہوجائیں گے تو وہ اپنی غلط فہمی دور کردیں، ملک کسی اورنئے الیکشن کے متحمل نہیں ہوسکتے اورپھر اس کی کیاگارنٹی کہ دوبارہ الیکشن کے بعد بھی نتائج اس سے مختلف ہوں گے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کے اندر اور باہر سے انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات آئندہ حکومت کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان بنے رہیں گے۔اگر انتخابات کی ساکھ متنازع ہوجائے تو حکومت سازی کے بعد بھی بر سر اقتدار جماعت کی گرفت حکومتی وانتظامی معاملات پر کمزور رہتی ہے اور معاشی وسیاسی استحکام ایک خواب بنا رہتا ہے۔ اس بات کا تعین بے حد ضروری ہے کہ کہ کیا وجہ ہے کہ تمام صوبوں میں یکساں طور پر اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل کی شفافیت پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں یہ معاملہ معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان انتظامی خامیوں کی نشان دہی ضروری ہے جن کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ متاثر ہوئی‘ الیکشن کمیشن کے نتائج کی ترسیل کے نظام کی ناکامی کا معاملہ بھی جامع تحقیقات کا متقاضی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سازی سے قبل ہی اس معاملے کو نمٹانے کی کوشش کی جائے۔یہ بات یقینی ہے کہ حکومت جو بھی بنائے گا اسے نہ صرف ملک کودرپیش بہت بڑے معاشی بحران سے نمٹنا ہوگا بلکہ پارلیمنٹ کے اندر بھی ایک انتہائی سخت اورمضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔ مخالف سارے یکجا اورمتحد ہوکراسے ایک کام بھی نہیں کرنے دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یہ ذمے داری اُٹھانے کو تیار نہیں ہے۔عددی اعتبار سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ ہیں لیکن پی ٹی آئی کو حکومت سازی کیلئے دوسروں سے رابطہ کرنے میں مبینہ طورپر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹیوں کو کسی نہ کسی طرح اپنی عددی حیثیت ظاہر کرکے حکومت سازی کا موقع دیاجارہاہے۔
ارباب اختیار کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ پاکستان میں اب تک ہونے والے تقریبا تمام انتخابات دھن دھونس دھاندلی بے بنیاد الزام تراشیوں منفی پروپیگنڈے اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خاطراختیارکئے جانے والے ہتھکنڈوں کے سبب غیر معتبر قرار پاتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ملک پون صدی میں بھی پائیدار استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکا اور آج ہر شعبہ حیات انحطاط کا شکار ہے جب جمہوریت کا گراف کمزور پڑتا ہے تو طالع آزماء قوتوں کو اپنا رنگ جمانے کا موقع ملتا ہے۔ وہ بس اپنے فوائد تلاش کرتے ہیں۔ امریکہ میں سرمایہ کاری اور مالیاتی امور کے حوالے سے مشاورتی خدمات دینے والی ایک بڑی کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام بڑی معیشتیں اپنی ”مالی موت“کی طرف بڑھ رہی ہیں۔کمپنی کے سربراہ نے امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی ایک دہائی”مشکل قرضہ جات کی دہائی“ہوگی۔ قرض لینے کے بحران نے
ترقی یافتہ اور ابھرتے ممالک کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے اور اس بحران کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی قرضوں میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ ستمبر میں یہ حد 3ہزار ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچی ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ قرضوں کے مسائل حل نہ کرنے والے کچھ بڑے ممالک سست نمو کا شکار ہو کر اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے جب کہ کچھ ابھرتی معیشتیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔جب دنیا کی اتنی بڑی معیشتیں اتنے بڑے بحران میں ہیں تو اس کا اثرلامحالہ پاکستان پر بھی پڑے گا۔ نئی حکومت بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔عوام پر مزید ٹیکسوں کی بھر مار ہوگی۔ عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔نجکاری سے عوام کی بڑی تعداد بیروزگار ہو کر سڑکوں پر آجائے گی۔ ایسی مہنگائی ہوگی جو عوام نے نہ کبھی دیکھی سنی ہوگی۔ بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب بجلی کے اتنے زیادہ بل آئیں گے کہ عوام پنکھے چلانا بھی بھول جائیں گے۔مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے صنعت کار فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔بے روزگاری غربت مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ انتخابی نتائج کے پیش نظر مستقبل میں ممکنہ سیاسی بحران کے نتیجے میں ڈیفالٹ کا خطرہ خدانخواستہ پھر منڈلا سکتا ہے۔