کروڑوں کی کمائی، مہنگائی مافیا اور کمشنری سسٹم کا گٹھ جوڑ بے نقاب
شیئر کریں
(رپورٹ/جوہر مجید شاہ )رمضان المبارک کی آمد سے قبل مہنگائی و مارکیٹ مافیا کا گٹھ جوڑ دوسری طرف کمشنر کراچی ڈویژن سلیم راجپوت بھی اپنے عہدے فرائض منصبی سے یکسر غافل شہر بھر میںمارکیٹ و مہنگائی مافیاکا غیرقانونی اشتراک جاری ہوشربا مہنگائی نے شہریوں کے ہوش اڑا دیے کمشنریٹ سسٹم و مشنری محض وصولیوں کے بازی و بادشاہ گرشہر بھر کے ڈپٹی کمشنر و اسسٹنٹ کمشنر مختار کار و ٹپہ دار مال کماؤ مشن پر گامزن اپنے عہدے فرائض مراتب واختیارات کومحض وصولیوں کے دھندے میں بدل دیا ۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کا طوفان شہریوں کو بہا کر لے جائے گا ، شہریوں کا زندگی سے ناطہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ، برائیلر مرغی بڑے چھوٹے کا گوشت انڈے اشیائے خوردونوش شہریوں کی قوت خرید سے باہربرائیلر مرغی تاریخ کی بلند ترین سطح پر7سے8سو روپے فی کلو دیسی مرغیایک ہزارسے بارہ سو روپے فی کلو بڑے کا گوشت14سو روپے فی کلو بکرے کا گوشتدو ہزار یا پھر جیسا گاہک ویسے ریٹ نرخ پر فروخت دھڑلے سے جاری ، یاد رہے کہ یہ ہڈی والا گوشت ہے بغیر ہڈی کا ریٹ اب متوسط طبقہ کی پہنچ سے باہر ہے جبکہ اشیائے خورد و نوش و سبزیوں کے دام بھی آسمانوں پر دوسری طرف مہنگائی و مارکیٹ مافیا نے علاقائی سطح پر بھی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں، پوش علاقوں میں کھلی لوٹ مار وہاں کے نرخ علاقے کے مطابق طے کئے جاتے ہیں جو کہ دگنا یا تین گنا زائد ہوتے ہیں شہر بھر میں حکومت و کمشنری نظام کے متوازی نظام کا سکہ ڈنکے کی چوٹ پر چل رہا ہئے بھاری نزرانے و بھتے کے عوض حکومت و کمشنری نظام گونگا، بہرا ، اندھا ہوگیا ہے ، فرائض منصبی عہدیاختیاراتگرویشہری مہنگائی و مارکیٹ مافیا کے ہاتھوں رل گئے ، واضح رہے کہ حکومتی سطح پرکمشنر کراچی اور ان کی شہر بھر میں موجود ٹیم مہنگائی کنٹرول کرنے کا کلی اختیار رکھتی ہیں ، یاد رہے کہ عرصہ10سال قبل سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بھی اس وقت کے سابق کمشنر نوید احمد شیخ سے مہنگائی سمیت دیگر امور پر کراچی رجسٹری میں باز پرس سمیت سخت سرزنش بھی کی گئی تھی ادھر سخت ترین مہنگائی اور من مانیوں کے باوجودمشنر کراچی اور ان کی ٹیم شہر بھر میں بڑی وصولیوں کا کاروبار سجائے بیٹھیں ہیں ، جو کہ شہر اور شہریوں سے بغاوت ہے ، واضح رہے کہ شہریوں کا کروڑوں اربوں روپے ٹیکس ان کی تنخواہوں اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ مراعات کی نظر ہو جاتا ہے ، شہریوں کو ریلیف دینے کے بجائے فرائض منصبی اختیارات کو مال بنا مشن میں بدل دیا جو کہ شہریوں کے ٹیکس پر کھلا ڈاکہ ہے ، شہریوں کے ٹیکس پر پلنے والے سرکاری افسران نے شہریوں پر ہی براہ راست ڈاکہ زنی کا عمل شروع کردیا ہے جبکہ اس گھناونے وصولی مشن پر وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں کی خاموشی مجرمانہ عمل میں براہ راست ان کی شراکت داری کے مترادف عمل ہے ادھر شہر بھر میں مارکیٹ و مہنگائی مافیا کے غیرقانونی اشتراک نے شہریوں سے فی سکینڈ و فی منٹ کے حساب سے لاکھوں کروڑوں کی غیرقانونی وصولیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے شہری مارکیٹ و مہنگائی مافیا کے بے رحم نشانے پر روزمرہ کے استعمال اشیائے خوردونوشں سمیت شہری سبزی،فروٹ ،گوشت ، مصالحہ جات، آٹا چینی سمیت دیگر اشیائے ضروریات سے بھی محروم ہوتے جارہیں ہیں ضلعی حکومتیں اور حکومتی مشنری کی شہریوں کی جیبوں پر جرائم پیشہ عناصر کی طرح ڈاکہ زنی کا عمل سرکاری سرپرستی میں کھلے عام جاری و ساری ہے شہریوں سے روزآنہ کی بنیاد پر لاکھوں،کروڑوں کی ڈاکہ زنی کا عمل جاری ہے ادھر حکومت سندھ کا ادارہ بیورو سپلائی اور ضلعی حکومت کے کرپٹ و راشی افسران راتوں رات سٹے کے اس بازار میں کروڑ پتی بن رہیں ہیں اور شہری کنگال ہورہیں ہیں مافیا بے رحمی سے شہریوں کا شکار کر رہی ہے دوسری طرف حکومت و کمشنر کراچی ڈویژن کے شہر بھر میں موجود فرنٹ مین کھلاڑیوں جن میں قابل ذکر ڈپٹی کمشنر ،اسسٹنٹ کمشنر، مختار کاروں ،تپہ داروں کا شہر بھر میں جال بچھا ہوا ہے مگر مذکورہ افسران جن پر شہریوں کے کروڑوں روپے بصورت ٹیکس خرچ ہوتے ہیں انھوں نے اپنے ریاستی عہدے فرائض منصبی اور اختیارات کو بس مال بنا اور وصولیوں کے دھندے میں بدل ڈالا جو اپنے فرائض منصبی عہدے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کیساتھ شہر اور شہریوں سے دھوکہ اور ان کے ٹیکسوں سے بھی بغاوت ہے اس غیرقانونی دھندے پر سپریم کورٹ کو فوری طور پر از خود نوٹس لینا چاہیے ادھر انتہائی افسوناک بات یہ ہے کہ مذکورہ حکومتی افسران شہر بھر میں مہنگائی مافیا کے خلاف ڈرامے بازی کرتے ہوئے نمائشی میچیز کا بھی جال بچھاتے ہیں اور شہر بھر کے تمام ڈسٹرکٹ کی حدود میں دودھ مافیا ،گوشت مافیا ، بیکری مٹھائی والوں کے خلاف تابڑ توڑ کاروائیاں بھی کرتے ہیں مگر محض ریٹ ، نرخ بڑھا مشن کیلے جو شہریوں سے سنگین مذاق ہے مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلی سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سندھ سمیت تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔