پاکستانی سیاست میں 'کپتان زندہ ہے '
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
کیا کوئی بلے بازبغیر بلے کے سنچری بنا سکتا ہے اور کوئی کپتان ٹیم کے بنا مقابلہ جیت سکتا ہے ؟ وہ کپتان اگر عمران خان ہے تو یہ کمال بھی ناممکن نہیں ہے ۔ اشتہاری پوسٹرس میں نعرے لکھنا کہ ‘مودی ہے تو ممکن ہے ‘اور اس کو عملی جامہ پہنا دینے کے فرق کو حالیہ پاکستانی انتخاب کے نتائج نے ثابت کردیا۔ عمران خان کی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ” جہاں پناہ” نے ان سے بلا چھین لیا اور اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا تو انہیں جیل بھیج کر ایک کے بعد ایک سخت سزائیں سنا نے کا اہتمام کردیا لیکن پاکستان کے غیور عوام نے اس سازش کو ناکام کردیا ۔ ان لوگوں نے بے نام و نشان عمران کے حامی امیدواروں کی سنچری پوری کروا دی اور نواز شریف کو تین چوتھائی و بلاول بھٹو کو نصف پر روک دیا ۔ ان نتائج کی تاخیر اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے ۔ شروعاتی رحجانات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوارڈیڑھ سوسے زائدمقامات پر آگے تھے ۔ دنیا کے کئی مبصرین نے اسی لیے اپنا اعتراض درج کرایا ہے ۔
فیفن نامی آزاد ادارے کے مطابق تقریباًتیس ایسی نشستیں ہیں جہاں مسترد کیے جانے والے ووٹوں کی تعداد جیت کے فرق سے زیادہ ہے ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ چندی گڑھ کے میئر انتخاب میں جو کھیل سر حد کے اس پار کھیلا گیا اس کو دوسری جانب بھی دُہرایا گیا۔ ان شکوک و شبہات کو نظر انداز کر کے اگر سرکاری اعدادو شمار کو بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی پاکستان کے اندر سیاسی شعور کی کمی کا رونا رونے والے یااسے ایک ناکام ریاست کے نام سے یاد کرنے والوں کے لیے یہ انتخابی نتائج ایک زور کا جھٹکا ہے جو بہت دھیرے سے لگا ۔ ان نتائج میں ای ڈی کی مدد سے چھاپے پر چھاپہ مار کر اپنے مخالفین کو جیل بھیجنے والوں کی خاطر یہ سبق ہے کہ ایسی اوچھی حرکات نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر سے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان میں حزب اختلاف اگر صبر و سکون کے ساتھ عمران خان کی مدت عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کرتا اور اقتدار میں آکر پوری طرح بے نقاب نہیں ہوتا تو شاید اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتا۔
وطن عزیز میں آج کل مخالفین کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کا خوب شور و غلغلہ ہے اور اسے کامیابی کی ضمانت سمجھا جارہا ہے مگر ان لوگوں کو چاہیے کہ ذرا سرحد کے دوسری جانب نظر اٹھا کر دیکھیں ۔ وہاں پر عمران خان کے ساتھ غداری کرکے ان کی مخالفت میں انتخاب لڑنے والے ابن الوقت شیخ رشید جیسے سارے سورما ڈھیر ہوگئے جن کو ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا ۔ ان لوگوں کو دغابازی کا ایک ایسا سبق سکھایا گیا کہ اب آگے چل کر اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا خیال کم ہی لوگوں کے دل میں آئے گا ۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں فوج کا عمل دخل یا اس کے ذریعہ عوام کی منتخبہ حکومت کو بلواسطہ یا بلا واسطہ اقتدار سے بے دخل کیا جانا ایک بہت بدنما داغ ہے لیکن وہاں پر انتخابی عمل میں اقلیت دشمنی کو مدعا نہیں بنایا جاتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان کے اندر اقلیتوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ اس کے علاوہ جہاں تک سکھوں کا تعلق ہے گوںناگوں وجوہات کی بناء وہ حکومت پاکستان کے منظور نظر ہیں ۔
پاکستان میں سکھوں کو خوش کرنے کے لیے گرونانک کے گرودوارہ صاحب سنگھ تک جو کاریڈور بناکر سکھ عقیدتمندوں کو بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کہ وہاں جانے کی اجازت دی گئی ۔ اس کے علاوہ وہاں پرگرونانک نے نام پر یونیورسٹی بھی قائم کی گئی ہے جبکہ یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار سرکار کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے اور دن رات سولیسیٹر جنرل حکومت کی جانب سے اسے ختم کرنے کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ماضی کے پاکستانی انتخابات میں ہندوستان کی مخالفت کا اچھا خاصہ حصہ رہا ہے ۔ مودی جی نے پانچ سال قبل سرجیکل اسٹرائیک اور گھر میں گھس کر مارا کا نعرہ لگاکر اس کی نقل کی تھی مگر ماہرین کی رائے ہے کہ اس بار وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہندوستان سے ڈرا کر یاانتقام کا حوالہ دے کر ووٹ بٹورنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود عمران خان کی کامیابی بتاتی ہے کہ اگر عوام کی حمایت حاصل ہوتی تو ٹیلی ویژن کے پردے سے لے کر ایوان تک رام نام جپنے کی کوئی ضرورت نہیں پیش آ تی ۔ مساجد پر بلڈوزر چلاکر فساد بھڑکانے اور اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے والوں کے لیے یہ درسِ عبرت ہے کہ اگر انہوں نے عوام کو اپنے کام سے متاثر کیا ہوتا تو انہیں ایسے سستے ہتھکنڈوں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ قوی امید ہے کہ پاکستان کے بعد ہندوستانی عوام بھی ثابت کر دیں گے کہ انتخاب میں ظالم کے بجائے مظلوم کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
پاکستان کے تعلق سے منفی خبروں سے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ بھرے پڑے ہیں لیکن کم لوگ یہ بات جانتے ہیں وہاں 265میں سے 20 نشستیں اقلیتوں کے لیے مختص ہیں جن کو بغیر الیکشن لڑے اقلیتی ارکان سے پر کیا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ بھی وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں اور اس بار خیبر پختوں خواہ سے ایک خاتون امیدوار نے اپنی کامیابی درج کرائی ہے ۔ خواتین کے حوالے سے وطن عزیز میں خوب سیاست ہوتی ہے ۔ اس کے تعلق سے ایک قانون بھی منظور ہوچکا ہے جو دس سال بعد نافذ ہوگا لیکن پاکستان کے اندر50 نشستیں خواتین کے لیے محفوظ ہیں جن پر انہیں کو نامزد کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انتخاب سے قبل وزیراعظم کا استعفیٰ دے کر ایک غیر سیاسی نگراں کے تحت انتخاب کا انعقاد بھی ایک اہم شے ہے بشرطیکہ وہ فوج کے عمل دخل سے پاک رہے ۔
برصغیر میں یہ انتخابات کا سال ہے ۔ ماہِ جنوری میں بنگلادیش اور فروری کے اندر پاکستان میں الیکشن ہوگیا ۔ مارچ یا اپریل کے اندر ہندوستان کے میں انتخاب ہوگا مگر اس کی مہم زور و شور سے شروع ہوچکی ہے ۔ بنگلا دیش ، پاکستان اور ہندوستان ان تینوں ممالک میں یہ قدر مشترک ہے کہ حزب اقتدار اپنے مخالفین کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر جیل بھیجنے کے درپہ ہے ۔ بنگلادیش کے اندر تو جماعت اسلامی بنگلادیش کے کئی رہنماوں کو سزائے موت دے کر بھی اس کے ذریعہ انتخابی فائدہ حاصل کیا جاچکا ہے ۔ ویسے بنگلادیش کے اندر پاکستان کی مانند حزب اقتدار کو استعفیٰ دینا پڑتا تھا مگر اس بار شیخ حسینہ واجد نے اس روایت کو ختم کردیا کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر دھاندلی کرنا چاہتی تھیں یعنی اپنے مخالفین کومقدمات میں پھنسانے کے باوجود انہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگرآزادانہ انتخاب ہوجائے تو ان کی چھٹی ہوجائے گی۔ سرکار کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اس بار حزب اختلاف نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔
حزب اختلاف کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عوام نے بھی انتخاب سے دوری اختیار کرلی اور سب سے پہلے باہر آنے والے اعدادو شمار کے مطابق صرف 28 فیصد لوگوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا جبکہ وہاں پہلے 70 فیصد سے زیادہ ووٹ پڑتے تھے ۔ اس طرح گویا 72 فیصد رائے دہندگان تو بائیکاٹ کرنے والوں میں شامل ہوگئے ۔ اس سبکی سے بچنے کے لیے حسینہ واجد کے اہلکاروں نے آگے چل کر 40 فیصد پولنگ کا دعویٰ جس پر کسی نے اعتبار نہیں کیا۔ خیر یہ تو عوام کے احتجاج کا ایک منفی طریقہ تھا جس نے حزب اقتدار کو بے نقاب کردیا لیکن پاکستان میں اس سے مختلف تجربہ کیا گیا۔ وہاں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں نے انتخابی میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ کسی سیاسی جماعت کے لیے مشترکہ نشان کے بغیر اپنے امیدواروں کو الیکشن لڑنا نہایت دشوار گزار عمل تھا لیکن اس کے باوجود عوام نے اپنی بیداری سے دنیا بھر کو چونکا دیا ۔ پاکستان بلکہ ساری دنیا کی میں پہلی بار قومی اسمبلی میں آزاد امیدواروں کو اکثریت مل گئی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار 100 نشستیں جیت گئے ۔اشرافیہ کی آنکھوں کے تارے اور امریکہ و یوروپ کے دلارے نواز شریف کی مسلم لیگ ن دوسرے پر رہی ۔ پیپلزپارٹی کو پھر ایک بار تیسرے نمبر پر اکتفاء کرنا پڑا۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 265 نشستوں میں سے 253 کے نتائج اتوار کے دن جاری کردیئے جبکہ 12نشستوں پر نتائج آنا باقی تھے ۔ ان میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے کامیابی کی سنچری مکمل کی اور سو آزاد امیدواروں کامیاب کرکے قومی اسمبلی میں بھیجا ۔مسلم لیگ ن نے اس وقت تک قومی اسمبلی کی 71نشستیں حاصل کی تھیں، پیپلزپارٹی 54 نشستیں اپنے نام کرچکی تھی۔ ان کے علاوہ ایم کیوایم پاکستان سترہ، ق لیگ تین، جے یو آئی ف تین اور استحکام پاکستان پارٹی دو نشستیں حاصل کرسکی تھی۔اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پی ایم ایل ضیا ایک ایک نشست جیت سکی تھیں۔ ان نتائج کے مطابق کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ وفاقی حکومت بنانے کے لیے ایوان میں 171 نشستوں کی ضرورت ہے۔ یعنی اگر مسلم لیگ ن اور پی پی پی ساتھ آجائیں تب بھی ان کے لیے مشکلات ہیں۔ ویسے عوام نے تو صاف اعلان کردیا ہے کہ اب ان فرسودہ جماعتوں کی ملک کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ عمران خان کی قیادت میں نیا پاکستان بنانے کے لیے پرعزم ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔