میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام کے خلاف مذہبی پروپیگنڈا کے تدارک میں علما کاکردار

اسلام کے خلاف مذہبی پروپیگنڈا کے تدارک میں علما کاکردار

ویب ڈیسک
پیر, ۱۰ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

امام کعبہ صالح بن محمد بن طالب اور وزیراعظم محمد نواز شریف کے درمیان گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں ملاقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے امام کعبہ سے کہا کہ مذہبی رہنما اور اسکالرز اسلام سے متعلق ’منفی پروپیگنڈے‘ کو دور کرسکتے ہیں۔وزیراعظم ہاو¿س سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ’قریبی اور مضبوط‘ ہوئے ہیں جب کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے ہیں۔وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلام محبت، امن، صبر، درگزر، احترام اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے اور موجودہ دور میں اس پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔وزیراعظم نے امام کعبہ کو بتایا کہ خانہ کعبہ کی وجہ سے پاکستانی عوام کا سعودی عرب سے خاص مذہبی و روحانی لگاو¿ ہے۔
اس امر میں کوئی شبہہ نہیں کہ علما، مذہبی رہنما اور اسکالر اسلام کے حوالے سے لادین او ر اسلام دشمن عناصر کی جانب سے پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کانہ صرف تدارک کرسکتے ہیں بلکہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرکے اسلام کے بارے میںپیدا کیے جانے والے غلط تاثرات کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں،تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ علما کرام اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہوکر اسلام کی خدمت پر توجہ دیں، علما کرام نہ صرف یہ کہ دنیا بھر میںاسلام کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی تاثرات کاتدارک کرسکتے ہیں بلکہ ملک کے اندر بھی مسلمانوں کو متحد کرنے اورانہیں اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے صرف دین کی خاطر متحد اور منظم کرنے کے حوالے سے بھی نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ نوشہرہ میں امام کعبہ شیخ صالح نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے دوران خطبہ جمعہ میں بھی اسی ضرورت کااظہار کیاتھا، انہوں نے اپنے خطبہ میں مسلم امہ کے متحد ہونے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ امام کعبہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں پاکستان کے معاشی استحکام کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو چکی ہے، اس کے ساتھ انہوں نے دہشت گردی اورفساد پھیلانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاتھا کہ اب دنیا میں دہشت گردی اور فساد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے جسے بین الاقوامی سطح پر تمام مذاہب کے ماننے والے اسکالر تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام امن اور محبت ، تحمل، درگزراوراحترام انسانیت کا درس دیتا ہے،پوری دنیا یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ کے اسوہ¿ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نے فلاح پائی اور اس سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے مختلف مسائل ،مصائب اور مشکلات میں گھر گئے۔
امام کعبہ شیخ صالح بن محمد الطالب کے اس قول سے کون اختلاف کرسکتاہے کہ اس امت کو اللہ رب العزت نے بہترین امت بنایا ہے اور اللہ کی وحدانیت پر یقین ہی ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے، اللہ کے ہاں اس کا مقام بلند ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہو، جبکہ قرآن ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور فرقہ واریت میں نہ پڑنے کا حکم دیتا ہے۔
جہاں تک پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا تعلق ہے تو پاکستان اور سعودی عرب دو حقیقی بھائیوں کی طرح ہیں۔ پاکستان کے عوام کے دل سعودی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، پاکستان کے عوام سعودی عرب سے مذہبی اورروحانی طورپرمنسلک ہیں اوردونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کواحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب پر حال ہی میں کیے گئے میزائل حملوں پر پاکستان کے عوام بھڑ ک اٹھے تھے ۔دہشت گردی کایہ ناسور صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اب سعودی عرب بھی اس سے محفوظ نہیں ہے ،پوری دنیا اس ناسو ر کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے اور مسلسل کارروائیاں کررہی ہے جس کا اندازہ امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں دہشت گردوں کے خلاف کیے گئے اقدامات سے لگایاجاسکتاہے ۔
جہاںتک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی ضرورت اوراہمیت کاتعلق ہے تو وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ روز بھی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے قوم کی حمایت سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کااظہار کرچکے ہیں ،تاہم وزیراعظم اور دیگر ارباب اختیار کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عز م کے اظہار کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رکتے نظر نہیں آتے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس عزم نو کی بنیاد پر قوم کو سیکورٹی اداروں کی ٹھوس عملیت پسندی کے مظاہر نظر بھی آنے چاہئیں۔ اگر ہر ایسے عزم کے بعد دہشتگرد کسی نہ کسی واردات کے ذریعے ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو دہشت گردی کے خاتمہ کا نیا چیلنج دیتے رہیں گے تو پھر دہشتگردی کا خاتمہ ہمارے لیے خواب ہی بنا رہے گا۔ دہشت گردی کی جنگ درحقیقت ملک کی بقاو سلامتی کی جنگ ہے جس میں سرخرو ہونا ہی ہمارا مطمع نظر ہے۔ اس لیے اب ہماری سیکورٹی فورسز اور سیکورٹی ایجنسیوں کی ساری توجہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے اقدامات پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اگر ان اقدامات میں کہیں کوئی کمزوری یا خامی رہ جائے تو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان رابطوں کو زیادہ مستحکم کیاجائے تاکہ کسی بھی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ملنے والی کسی بھی اطلاع پر تمام فورسز مل کر فوری اور مو¿ثر کارروائی کرسکیں اور دہشت گردوں کی واردات سے قبل ہی انہیں گرفتار کیاجاسکے۔ اس طرح دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کے نیٹ ورک کا پتہ چلاکر ان کاقلع قمع کرنے میں بھی مدد ملے گی اور دہشت گردی کے واقعات کاسدباب بھی ہوسکے گا، ہر کام صرف پاک فوج پر چھوڑ کر مطمئن ہوجانے کی یہ روش ترک کیے بغیر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اس ناسور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوسکتا ۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر داخلہ اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے بلکہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو متحد ہوکر دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی معاونت اور مدد کرنے کا پابند بنانے کے لیے مو¿ثر لائحہ عمل اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں