سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ملک کا جمہوری مستقبل
شیئر کریں
عدالت ِعظمیٰ نے ہفتے کی رات ”جانب دار“ الیکشن کمیشن کے انتہائی متنازع فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف سے بلا واپس لے لیا۔ یہ پہلے سے ہی نظر آنے والا ایک ایسا فیصلہ تھا جس کی تاریخ سے پہلے توایسی نظیر ملنا مشکل ہے مگر جس کے حالات غیر متوان طور پر تحریک انصاف کے لیے پیدا کردیے گئے تھے۔ یہ تحریک انصاف سے زیادہ خود سپریم کورٹ کے لیے ایک گہراد دھچکا ہے کہ اُس پر عوام کی ایک بڑی تعداد مایوس کن فیصلے کا خدشہ پہلے سے ہی ظاہر کردے اور عدلیہ خود کو اس کے عین مطابق ثابت بھی کردے۔ ایک ایسی عدلیہ جہاں جسٹس (ر) منیر کا سایہ ابھی سمٹا نہ ہو، دو روز قبل ہی جہاں سے دو جج صاحبان یکے بعد دیگرے استعفے دے چکے ہوں، جہاں ایسے ”معزز“ جج صاحبان بیٹھے ہوں، جنہوں نے چند ہفتے قبل خود اسی عدلیہ میں اپنے سے”سینئرز“ سے جو مطالبات کیے ہوں، اب خود اُن سے وہ مطالبات ہو رہے ہوں اور وہ اسے پورا نہ کرنے کر رہے ہوں، جن پر مخصوص جھکاؤ کے مبینہ ”الزامات“ لگ رہے ہوں، اُنہیں خود کو تعصبات سے پاک انصاف فراہم کرنے کے تاثر کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے کنڈکٹ اور عدالتی ڈیکورم کا زیادہ لحاظ کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس باب میں مایوسی مزید بڑھا دینے والی ثابت ہوئی۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ سپریم کورٹ کے جس بینچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے وہ چند روز قبل ہی تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے ایک سابق فیصلے کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے چکا ہے کہ اس نے تاحیات نااہلی کے لیے آرٹیکل 62ون (ایف) کو ایک ایسی سزا کے لیے استعمال کیا ہے جو پہلے کبھی موجود ہی نہ تھی۔ مگر چند روز بعد ہی چیف جسٹس کی سربراہی میں اُسی تین رکنی بینچ نے بظاہر الیکشن کمیشن پاکستان کی اسی طرح کی خلاف ورزی کی توثیق کردی۔ الیکشن کے قواعد وضوابط کی کوئی کتاب یا قانون الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو محض اُس کے انٹرا پارٹی الیکشن کی بنیاد پر اُس کے انتخابی نشان سے ہی محروم کردے۔ الیکشن کمیشن نے یہ دھڑلے سے کیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی ختم کرنے کے لیے جس دلیل کو اختیا رکیا، اُسی کے برخلاف جا کر الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ اور یکطرفہ فیصلے پر ”انصاف“ کی مہر لگا دی۔ یہ چیف الیکشن کمشنر کے لیے بھی راحت کا ایک موقع ہے کہ اُن پر یکطرفہ فیصلوں اور کسی جماعت کو نوچنے کے لیے یکطرفہ دباؤ نہیں بلکہ نظام کے دیگر پرزے اُنہیں مختلف جگہوں سے ”ریسکیو“ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اب وہ انتخابات کے اگلے مرحلوں میں مزید ”بے پروا“ ہوسکتا ہے۔ یہ بوجھ اب تنہا الیکشن کمیشن پر نہیں ہے کہ اُس نے ملک کی سب سے مقبول جماعت کو صرف ”تکنیکی“ بنیادوں پر انتخابی عمل سے باہر کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے مضبوط حمایت کے وسیع حلقے کے لیے یہ فیصلہ قبول کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف سے ہٹ کر قانون پسند اور ملک میں قانون کی حکمرانی دیکھنے کے خواہش مندوں کے لیے بھی یہ فیصلہ ایک دھچکا ثابت ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ فیصلہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں قبل ازانتخاب دھاندلی کے الزامات کو تقویت دے گا۔ جیسا کہ جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار اور اسکالر مائیکل کوگلمین نے اپنے ردِ عمل میں اس فیصلے کو نامناسب اور قبل از انتخابات دھاندلی قرار دیا۔ہر گزرتے دن یہ فیصلہ انتخابی عمل پر شکوک پیدا کرنے کی مثال بن کر پیش کیا جاتا رہے گا۔ کیونکہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف شدید دباؤ پیدا کرنے والے پہلے سے زیادہ بُرے حالات کے دباؤ اور بہاؤ میں آیا ہے۔ پاکستان میں وہ طبقے جو سیاسی تعصبات اور گروہ بندیوں سے اُٹھ کر واقعات وحالات کا تجزیہ جمہوریت کے اب تک قابل قبول تصور کی آدرش بنیادوں سے کرتے ہیں، وہ بھی حیران ہیں کہ ملک میں آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ طبقہ جو پہلے خود عمران خان کے عرصہئ اقتدار میں توازنِ طاقت کے بگڑنے اور جمہوری حکومتوں کے ریاستی رسہ کشی کے پرانے قضیہ میں پلڑوں کے عدم توازن پر پریشان رہتا تھا، اب خود عمران خان کے ساتھ اُسی سلوک پر بھی پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرف ایک فقرے کی بازگشت ہے کہ ملک میں یہ کیا ہورہا ہے؟
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی اپیل پر جس طرح کی سماعت ہوئی وہ بجائے خود قانونی ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ ایک جماعت کے اندرونی معاملات کو بہت باریک نظر آنے والی خوردبین سے دیکھا گیا، مگر دوسری طرف ایسے حوالے پسند نہ کیے گئے جو یکساں طور پر اُن ہی معاملات میں دوسری جماعتوں کو بھی ہدف بناتے ہیں۔ یوں تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے رواداری اور وضع داری پر مبنی رویے سے ہٹ کر تنہا دیکھا گیا۔ اس معاملے میں انتہائی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وکلاء نے انتہائی ناموزوں سوالات کا بھی سامنا کرتے ہوئے بعض حلقوں کی نفسیاتی تسکین کا سامان ہونے دیا۔ یہ وہ سوالات تھے جس کے جائزیا ناجائز ہونے کا سوال الیکشن کمیشن کے انتہائی مہنگے وکیل مخدوم علی خان سے صحافیوں نے سپریم کورے کی حدود میں پوچھا۔ اُن سے پوچھا گیا کہ کیا سپریم کورٹ کسی سیاسی جماعت کے اندرونی معاملات پر اتنے ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھنے میں حق بجانب ہے؟ مگر مخدوم علی خان نے منہ سے بھاپ نکالے بغیر خاموشی سے چلے جانا مناسب سمجھا۔ سپریم کورٹ کی یہ فضا دراصل فیصلے سے پہلے ہی فیصلے کی غمازی کر رہی تھی۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کا زیادہ بہتر طریقے سے جائزہ تو تب ہی لیا جا سکے گا جب تفصیلی فیصلہ آجائے گا، مگر اس فیصلے کے اثرات و نتائج نہایت واضح ہے۔
سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ سادہ لفظوں میں تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان واپس نہیں لیتا۔ بلکہ یہ بطور جماعت اُس کی سیاسی حیثیت کو ہی الیکشن کمیشن کی نظروں سے ختم کردیتا ہے۔ اس لیے اس فیصلے کے حوالے سے یہ دلیل دینا کہ الیکشن کمیشن پہلے بھی انتخابی نشانات کو واپس لیتی رہی ہے، سرے سے غلط ہے۔ تحریک انصاف ایک جماعت کے طور پر اب مخصوص نشستوں کے حق سے محروم ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کے ساتھ ایک امتیازی سلوک ہے۔ اس طرح تحریک انصاف کے وابستگان پورے ملک میں کسی ایک انتخابی نشان کے حق سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ آزاد امیدواروں کے طور پر الگ الگ نشانات سے پورے ملک میں انتخابی چلاسکیں گے، جسے چلانے کی راہ میں پہلے سے ہی بڑی رکاؤٹیں ہیں۔ اگر ان سب رکاؤٹوں کو عبور کرکے تحریک انصاف کے کچھ امیدوار کامیاب ہو بھی گئے تو اُن کی وفاداریوں کوسنبھالے رکھنے کے لیے جو آئینی تحفظ ہے وہ تحریک انصاف کے بطور جماعت نہ ہونے کے باعث اُن پر لاگو نہیں ہوگا۔ یوں تحریک انصاف کے کامیاب ارکان کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی گنجائش بھی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ پورا منظرنامہ دراصل تحریک انصاف سے بلا چھین کر انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں یہ غیر متوازن سیاسی بندوبست اس قدر بھیانک شکل اختیار کرچکا ہے کہ اس پر کوئی سوال اُٹھانا بھی دشوار بنادیا گیا ہے۔سپریم کورٹ سے تحریک انصاف کو بلا نہ ملنے اور الیکشن کمیشن کے اقدام کو قانونی جواز ملنے کے بعد جو اثرات ونتائج پیدا ہوں گے وہ ملکی سیاست میں جمہوریت کو مزید کمزور کریں گے۔یہاں تک کہ وطنِ عزیز کے جمہوری مستقبل پر بھی سوالات کی تلوار لٹکائیں رکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔