میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان تعلقات پر وزارت خارجہ کے ترجمان اور مشیر قومی سلامتی کی وضاحتیں

پاک افغان تعلقات پر وزارت خارجہ کے ترجمان اور مشیر قومی سلامتی کی وضاحتیں

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

مشیرقومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ نے گزشتہ روز ایک مرتبہ پھریہ واضح کیاہے کہ افغانستان کی سلامتی پاکستان سے جڑی ہے اورپاکستان افغانستان میں دیرپا امن کا خواہاں ہے ۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان نے کبھی بھی ڈبل گیم نہیں کھیلا، پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتاہے ۔
اس امرمیں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتارہاہے ،جبکہ پاکستان اور افغانستان کی دوستی اور اتحاد سے خوفزدہ طاقتیں دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، پاکستان مخالف ان ہی عناصر نے دنیا بھر میں ہمارے بارے میں یہ غلط تاثر پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان طالبان کے حوالے سے ڈبل گیم کھیل رہاہے اورافغانستان میں دخل اندازی میں مصروف ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان اور افغان عوام کے ساتھ محبت کی وجہ سے گزشتہ 40 سال سے مشکلات کا شکار ہے اور 4 دہائیوں سے قربانیاں دے رہا ہے اور ہم دنیا کے امن کے لیے فرنٹ لائن کے طور پر کھڑے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جہاد کے نام پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا، مخالفین کے پراپیگنڈے کی وجہ سے دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ ہم افغانستان میں دخل اندازی کر رہے ہیں اورطالبان کے حوالے سے ڈبل گیم کھیل رہے ہیںلیکن حقیقت میں ایسا نہیںہے، پاکستان نے کبھی ڈبل گیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔
جہاں تک پاکستان کی جانب سے افغانستان سے ملحقہ سرحد پرباڑ لگانے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے گزشتہ روز ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان اپنی حدود میں باڑ لگا رہا ہے تاکہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی پاکستان میں داخلے کی کوششوں کاسدباب کیاجاسکے اور پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کے عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے ،اس کی طوالت لگ بھگ 2600 کلومیٹر ہے۔افغان حکام کہتے رہے ہیں کہ ان کے ملک نے پاکستان کے ساتھ سرحد ’ڈیورنڈ لائن‘ کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جب کہ پاکستان کا یہ مو¿قف رہا ہے کہ’ڈیورنڈ لائن‘ ایک حل شدہ معاملہ ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے نیوز بریفنگ میںیہ واضح کردیا ہے کہ سرحد کی نگرانی کے لیے کیے جانے والے تمام کام پاکستانی حدود ہی میں کیے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کے اواخر میں قبائلی علاقوں کے دورے کے موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ واضح کردیاتھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام ترجیحی بنیاد پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں شروع کیا گیا ہے، جہاں فوج کے مطابق سلامتی کو زیادہ خدشات ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریاکی جانب سے اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چند روز قبل افغانستان کی طرف سے پاکستان سے کہا گیا تھاکہ وہ سرحد پر باڑ لگانے کا کام روک دے۔جس پرپاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے اسی وقت یہ واضح کردیاتھا کہ باڑ لگانے کا مقصد سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنا ہے کیونکہ سرحد کی نگرانی کا مقصد لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے علاوہ سفری دستاویزات کے ساتھ سفر کرنے والوں کی آمد و رفت کو بہتر بنانا ہے۔اس سے قبل پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ میں کہا تھا کہ لوگوں کے درمیان رابطے بڑھانے کے لیے پاکستان سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر جدید ویزا نظام متعارف کرانے پر بھی کام کر رہا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے رکن آفتاب شیرپاو¿ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ کمیٹی کے اراکین نے بھی حکومت سے کہا ہے کہ دوطرفہ رابطوں کو فروغ دیا جائے۔” ہم تویہ چاہتے ہیں کہ دو طرفہ رابطوں کو فروغ دیا جائے تاکہ آپس میں دونوں ممالک کے درمیان یہ سلسلہ جاری رہے، رابطے جتنے بھی زیادہ ہوں بہتر ہیں، اس کے بغیر تو سلسلہ چل نہیں سکتا ہے اور ہم نے کہا ہے کہ ہر ایک سطح پر، حکومت کی سطح پر، اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر اور عوام سے عوام کے رابطوں کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔“
آفتاب شیرپاو¿نے یہ بھی بتایاتھا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے افغان ہم منصب کو ایک خط لکھا ہے کہ وہ افغان پارلیمانی وفد پاکستان بھیجیں۔جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے رواں ماہ ماسکو میں ہونے والے کثیر الملکی مذاکرات میں شرکت کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔
ناصر جنجوعہ نے کہا کہ ’سازشوں کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں غلط تاثر پایا جاتا ہے، ہمیں ایک خطرناک مسلمان ملک سمجھا جاتا ہے، دنیا سمجھتی ہے کہ ہم افغانستان میں دخل اندازی کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی درست تصویر دنیا کے سامنے نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم 40 سال سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور ہماری معیشت تباہ حال ہے، لیکن دنیا کو یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔‘
اور ہمیں مسلمان اور ایک خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے حالانکہ پاکستان امریکہ اور دنیا کے ساتھ نائن الیون کے ذمہ داروں کےخلاف لڑتا رہاہے۔
جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بات ہے تو اس حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ طالبان کو پہلے افغان الیکشن کا حصہ نہ بنانے میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں تھا، پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد انتہائی پیچیدہ ہے، بلوچستان میں 200 اور خیبرپختونخوا میں 128 غیر قانونی راستوں سے افغان شہری پاکستان آتے ہیں۔جہاد کے نام پر کالعدم ٹی ٹی پی کوپاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا ، پاکستان کئی برس سے طالبان کی دہشت گردی کا شکار ہے، جہاد کے رجحان کوپاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا، پاکستان نے افغان طالبان کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکا تو انہوں نے پاکستانی طالبان بنادی، پاکستان نے طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں توانہوں نے پاکستان سے جہاد کا فتویٰ دے دیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی بیخ کنی اور ان کاصفایا کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد شروع کرنے پر مجبور ہوناپڑا۔جس کے نتائج پوری دنیا نے دیکھے ۔پاکستان نے ضرب عضب اورآپریشن ردالفساد کے ذریعے، بلوچستان، خیبر پختونخوا ،فاٹا اور کراچی میں دہشتگردی پر قابو پالیا ہے۔ چین اور روس سے اتحاد نے پاکستان کا مستقبل روشن کردیا ہے اور پاکستان مضبوط معاشی طاقت بننے جا رہا ہے، اب پاکستان دنیا بھر کا تجارتی حب بننے جا رہا ہے، پاک چین اقصادی راہدری ہمیں ایشیا ہی نہیں دنیا بھرسے جوڑ دے گی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا اورمشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کی ان وضاحتوں کے بعد اب افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں کاسلسلہ بند کردیاجائے گا اور کھلے دل کے ساتھ پاکستان کی دوستی کی خواہش کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعاون کے فروغ کی کوشش کی جائے گی کیونکہ پاکستان کے ساتھ حقیقی دوستی ہی خود افغانستان کی سلامتی اور افغان عوام کے تحفظ کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں