پاکستان میں اینٹی بایوٹکس ادویات اپنا اثر کھونے لگیں
شیئر کریں
ملک میں اینٹی بایوٹکس کا غلط استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اسے روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی اشد ضرورت ہے، طبی ماہرین
اکثر ڈاکٹر بلاضرورت اینٹی بایوٹکس ادویات تجویز کرتے ہیں، اینٹی بایوٹکس ادویات سرطان کا باعث بن سکتی ہیں،جدید تحقیق
صبا حیات نقوی
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو طویل عرصے سے اینٹی بایوٹکس لیتے رہے ہیں، ان کی بڑی آنت میں رسولیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو کینسر کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنتوں میں پائے جانے والے جراثیم کا رسولیوں کی نشو و نما میں ہاتھ ہوتا ہے۔یہ تحقیق سائنسی جریدے ‘گٹ’ میں شائع ہوئی ہے۔تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور لوگوں کو اس سے اینٹی بایوٹکس چھوڑ نہیں دینی چاہئیں۔
بڑی آنت کے پولِپ، یا آنتوں کی دیوار کے ساتھ بننے والی چھوٹی چھوٹی گلٹیاں عام ہیں اور یہ 15 سے 20 فیصد برطانوی شہریوں میں پائی جاتی ہیں۔تاہم اکثر اوقات وہ کسی قسم کی علامات پیدا نہیں کرتیں، لیکن اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو ان میں سے بعض سرطانی بن سکتی ہیں۔اس تحقیق میں سائنس دانوں نے 16600 نرسوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جنہوں نے امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں حصہ لیا تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ نرسیں جنہوں نے دو ماہ یا اس سے زائد عرصے تک اینٹی بایوٹکس استعمال کی تھیں، اور ان کی عمریں 20 اور 39 کے درمیان تھیں، ان میں ایک خاص قسم کا پولپ، جسے ایڈینوما کہا جاتا ہے، پیدا ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔تاہم اس تحقیق میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کتنے پولپ بعد میں سرطان بن گئے۔تحقیق کار کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ اینٹی بایوٹکس سرطان پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں جراثیم کا بھی اہم کردار ہو سکتا ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ‘ممکنہ حیاتیاتی توجیہ’ موجود ہے۔انہوں نے لکھا ہے: ‘اینٹی بایوٹکس نظامِ انہضام میں پائے جانے والے جراثیم کا مجموعی ماحول تبدیل کر دیتی ہیں، اس سے جراثیم کی تعداد اور تنوع میں فرق پیدا ہو جاتا ہے، اور خطرناک جراثیم کے لیے مزاحمت کم ہو جاتی ہے۔
”اس تمام صورتِ حال سے سرطان کی نشو و نما میں مدد ملتی ہے۔ دوسری طرف وہ جراثیم جن کے خلاف اینٹی بایوٹکس استعمال کی گئیں، وہ بھی سوزش پیدا کرتے ہیں، جو سرطان کا باعث بنتی ہے۔“
انہوں نے مزید لکھا: ’اگر اس تحقیق کی دوسرے مطالعہ جات سے تصدیق ہو جائے تو اس سے ممکنہ طور پر اس ضرورت کا اشارہ ملتا ہے کہ رسولیوں کو بننے سے روکنے کے لیے اینٹی بایوٹکس کے استعمال اور سوزش کو کم کیا جائے۔‘یونیورسٹی آف مانچسٹر میں امیونالوجی کی ماہر ڈاکٹر شینا کروئک شینک اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’اس تحقیق سے نظامِ انہضام کے جراثیم کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن مجھے تشویش ہے کہ کہیں لوگوں کو اینٹی بایوٹکس کے استعمال سے منع نہ کیا جائے۔‘وہ کہتی ہیں: ’اینٹی بایوٹکس انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ادویات ہیں، اور اگر انہیں مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ زندگیاں بچا سکتی ہیں۔‘
دوسری جانب جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مقالے کے مطابق پاکستان میں اینٹی بایوٹکس کا غلط استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اسے روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی اشد ضرورت ہے۔تحقیق کار ڈاکٹر اعجاز اے خان نے لکھا ہے کہ پاکستان میں یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے کہ اس کے حل کے لیے معاشرے کے مختلف طبقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، جن میں حکومت، ڈاکٹر، فارماسیوٹیکل کمپنیاں، فارماسسٹ، میڈیکل اسٹور اور مریض شامل ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مدافعت رکھنے والے جراثیم کے ہاتھوں دنیا بھر میں سات لاکھ کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لیکن 2040 ءتک یہ تعداد بڑھ کر 30 کروڑ ہو جائے گی اور اس پر آنے والی لاگت ایک ہزار کھرب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
پاکستان میں اس سلسلے میں نہ تو درست اعداد و شمار موجود ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو اس مسئلے پر نظر رکھ رہا ہو۔ البتہ ایسی تحقیقات موجود ہیں جن سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اکثر ڈاکٹر بلاضرورت اینٹی بایوٹکس ادویات تجویز کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں بین الاقوامی سفارشات کا خیال نہیں رکھتے۔ پشاور میں ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ڈاکٹروں کا ایک بھی نسخہ معیار کے مطابق نہیں تھا۔فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں ضرورت سے زیادہ یعنی 50 ہزار ادویات رجسٹرڈ کرائی گئی ہیں، ان کی تشہیر کا 18 فیصد حصہ ‘بلاجواز اور گمراہ کن’ ہے، جب کہ صرف 15 فیصد تشہیری بروشر ڈبلیو ایچ او کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی بھی شخص جا کر میڈیکل اسٹور سے کسی بھی قسم کی دوا بغیر ڈاکٹری نسخے کے لے سکتاہے اور اسٹور والے لوگوں کو ادویات دے دیتے ہیں۔ اس سے لوگوں کے اپنا علاج خود کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اعجاز کہتے ہیں کہ اکثر اوقات معمولی زکام، بخار یا کھانسی ہوتے ہی لوگ اینٹی بایوٹک کھانا شروع کر دیتے ہیں اور جوںہی ذرا سا افاقہ ہو، چھوڑ دیتے ہیں۔یہ سارے عوامل جراثیم کے اندر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
چند برس قبل برطانوی طبی جریدے لانسٹ میں ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں جراثیم کی ایسی نسلیں پنپ رہی ہیں جن پر 2 کو چھوڑ کر باقی تمام اینٹی بایوٹکس بے اثر ہیں۔ڈاکٹر اعجاز خان نے برطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں آگاہی پھیلانے کے لیے قومی سطح پر مہم چلائی جانی چاہیے، جس میں تمام شعبوں کو شامل کیا جائے۔
ادویات کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے جراثیم کے اندر مدافعت بڑھ رہی ہے۔ڈاکٹروں کاکہنا ہے کہ عام طور پر بخار خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس کے لیے نہ تو ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اینٹی بایوٹک استعمال کرنے کی۔ لیکن اگر بلاضرورت اینٹی بایوٹک استعمال کی جائیں تو ایسے جراثیم وجود میں آ سکتے ہیں جن پر بعد میں وہ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ چند برس قبل جن جراثیم کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا تھا، ان پر اب یا تو اینٹی بایوٹکس بالکل ہی بے اثر ہو گئی ہیں یا پھر ان کے لیے سیکنڈ لائن ادویات کی ضرورت پڑتی ہے جو انتہائی مہنگی ہیں۔جس کی وجہ سے وہی بیماری جو چند سو روپوں میں ٹھیک ہو سکتی تھی، اب اس کے علاج پر کئی ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کو آگے آ کر اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے، کیونکہ بغیر واضح پالیسی کے اس مسئلے پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ مسئلہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ جانوروں اور مرغیوں میں بھی بے تحاشا اینٹی بایوٹکس دی جا رہی ہیں، جن کی وجہ سے مدافعت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے اس پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے۔