میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بادشاہ کی تاج پوشی کیلئے ڈرامہ

بادشاہ کی تاج پوشی کیلئے ڈرامہ

ویب ڈیسک
پیر, ۲۷ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

رفیق پٹیل

ُٰپاکستان میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی رسمی کارروائی کے لوازمات پورے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اس کھیل میں محض تماشائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ عوام بجلی کے بلوں اور مہنگائی کی مار کھائے ہوئے اور پریشان حال ہیں۔ انتخابات بھی اس لیے ان کے لیے خوشگوار خبر نہیں ہے کہ آنے والے انتخابات کو آزادانہ کہنا ایک مذاق کے سواکچھ نہیں ہے۔ عوام اس کی شفافیت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کو روکنے کے لیے حکومت کی مشینری ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے ۔سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر بغیر کچھ چھپائے ہوئے ہو رہا ہے۔ یہ خانہ پری نوازشریف کی حلف برداری کے لیے کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی بھی اس پر ناراض ہے۔ اب یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نوازشریف ہی گزشتہ 18ماہ سے ملک کے ڈی فیکٹو یعنی اصلی وزیراعظم ہیں۔ لندن میں بھی کابینہ کے اہم ممبران اور اپنے چھوٹے بھائی سابقہ وزیراعظم شہباز شریف انہی سے ہدایات لیتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم کی نامزدگی بھی انہی کی مرضی سے ہوئی ہے۔ جس انداز سے ان کی واپسی ہوئی ہے وہ کسی وزیر اعظم کی واپسی سے کم نہیں تھی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی سفیر سے ان کی الوداعی ملاقات اس طرح ہوئی جیسے کسی وزیراعظم کی وطن واپسی کے وقت ہوتی ہے۔ ملک میں انتظامیہ نے ان کا بھرپور خیر مقدم کیا ۔تمام انتظامیہ نے پورا زور لگا کر ان کے لیے جلسے کا جس انداز سے انتظام کیا، ایسا خود ان کے اپنے سابقہ دور حکومت میں نہیں ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ بات بعید از حقیقت ہو لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے تمام اہم اداروں کا انتظام ان کے ہاتھ میںہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو وہ بادشاہ کے طور پر واپس لائے گئے ہیں ۔دنیاکے بیشتر ممالک میں جو مختلف نظام ہیں اس میں ادارے آزاد اور غیر جانب دار ہوتے ہیں۔اس میں مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جس کی وجہ سے عدم استحکام نہیں ہوتا لیکن یہاں اداروں کی غیر جانب داری سوالیہ نشان ہے ۔ کئی نامور صحافی اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے ہرشخص کو یہ باور کرایا جا رہاہے کہ اب نواز شریف ہی وزیر اعظم منتخب ہوں گے اور انہی کی حلف برداری ہوگی۔ ان کے رہنما برملا کہتے ہیں کہ ہماری اوپر بات ہوچکی ہے ۔
یہ رہنما اس حقیقت کو چھپارہے ہیںکہ اس سارے ڈرامے میں صرف ایک کمی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ عوام کی امنگوں اور خواہشات کے خلاف ہے ۔غربت مہنگائی اور بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان حال عوام کو آج کل کون پوچھتا ہے وہ ایک ان دیکھی قید میں ہیں ،وہ اس ناد یدہ جیل کے بادشاہ کی تاج پوشی کا تماشہ فروری کے مہینے میںجبراً اور مجبوری میں دیکھیں گے۔ ایسی پستی اور بے بسی پر ملک کی بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس طے شدہ ڈرامے کی حصہ دار ہیں کیونکہ انہیں امید ہے کہ اس مرتبہ انہیں کچھ بڑا حصہ ملنے والا ہے اور پھر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی شرائط پوری کرنے کے لیے انتخابی عمل کی رسمی کارروائی بھی طے کرنی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات سے مکمل طور پر مطمئن ہماراپڑوسی ملک ہے جو اس خطّے کی بڑی قوت بننا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ پروسی ممالک پر اتنا زیادہ اثر ہو کہ وہ ایک کالونی کا درجہ حاصل کرلیں۔ اس سلسلے میں و ہ ایک حد تک مغرب اورعالمی طاقتوں کا تعاون حاصل کرنے میںکامیاب ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان کے حالا ت کسی عالمی منصوبے کا حصہ ہوں اور پاکستان میں موجود بعض اہم لوگ نا دانستہ اس کھیل کا حصہ بن گئے ہوں۔ پاکستان میں آئندہ کا نقشہ کیا ہوگا اس کی نئی سمت کیا ہوگی، اس میں نواز شریف کی کیا اہمیت ہوگی ؟ اس کا اندازہ آئندہ کے حالات سے لگایاجاسکے گا ۔
نواز شریف کی رسمی حلف برداری کے لوازمات میں ان کے مقدمات کاخاتمہ انتخابات میں ان کی جماعت کو کامیاب کرانے کے لوازمات پورے کرنے میں ایک رکاوٹ بڑی عوامی مزاحمت کا خطرہ ہے ۔غصے میں مبتلا عوام اس سارے ڈرامے کو نیست و نابود کرسکتے ہیں۔ حکومت کے لیے اس کا آسان حل تحریک انصاف پر پابندی ہے۔ ان کے متوقع امیدوار جیلوں میں بند ہیں یا گرفتار کیے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کی نااہلی کا اعلان کسی وقت بھی سامنے آسکتاہے جو کچھ اب تک ہو چکا ہے۔ اس میں اگر عوامی ردّعمل کے اضافے کی صورت میں تحریک انصاف کامیاب بھی ہوجاتی ہے، اس صورت میں بھی انتخابات متنازع ہی رہیں گے، اس کی وجہ یہ ہے تحریک انصاف کی انتخابی سرگرمیوں پر پابندی کا عمل پہلے سے جاری ہے۔ سب کے لیے برابر کے مواقع نہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ پیپلزپارٹی کو بھی باہر کرکے سندھ میں بھی نیا اتحاد سامنے لایا جا رہاہے۔ یہ ایک ایسا اندرونی انتشار ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے کہ اگر نواز شریف وزیراعظم بن بھی گئے تو اس صورت میں بھی ان کی عوامی مخالفت میں مزید اضافہ ہوگا ۔لوگوں میں روز بروز غصہ بڑھ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ اداروں کی جانب داری اور آئین سے روگردانی ہے۔ میڈیا کی غیر جانب داری اور شفافیت ختم ہوچکی ہے۔ لوگوں کا میڈیا پر اعتماد ختم ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ عدالتوں کا حال برا ہے، الیکشن کمیشن بھی اپنی ساکھ کھوچکاہے۔ تحریک انصاف کے رہنما گرفتار کرلیے جاتے ہیں اور چند روز بعد وہ کسی اور سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اسے” اغوا برائے بیان ” کانام دے رہے ہیں۔نگراں حکومت مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی حکومتوں کو غیرقانونی تصور کیا جارہاہے ۔جماعت اسلامی جو اسرائیل کے غزہ کے حملوں پر احتجاج کررہی ہے، وہ پاکستان میں ہونے والی سازشوںسے یا تو ناواقف ہے یاجان بوجھ کر اپنے گروہی مفادات کی خاطر نظر انداز کررہی ہے۔ شاید وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب کچھ کسی عالمی منظرنامے کا حصہ ہے اسے نظر انداز کر رہی ہے۔ دیگر صورت وہ پاکستان میں جاری ناانصافیوں پر بھی کسی بڑے ردّعمل کا اظہار کرتی، سیاسی جماعتوں کو ایک حل تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان میں عوام کو آزادانہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں اس بحران کا خاتمہ کیا جاسکتاہے ۔اس کے لیے ایک وسیع تر مفاہمت کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کے عوام اسی طرح موجودہ نظام سے بددل رہے اور یہ بددلی بڑھتی گئی تو ملک مزید انتشار خانہ جنگی اور ایسی انتہاپسندی کی جانب جا سکتاہے جو نہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا ،نہ ہی ان قوتوں کے جو کسی غیرملکی سازش کا نادانستہ حصہ بن رہے ہیں۔ مغرب میں بھی انتہاپسندی کو پزیرائی نہیں ملے گی۔ تحریک انصاف کو حکومتی مشینری سے ختم کرنے کوشش میں مصروف قوتوں نے بعض حقائق نظر انداز کردیے ہیں،جب کھیل کے میدان میںکسی ٹیم کو بے ایمانی یا فکسڈمیچ کے ذریعے ہرانے کو تسلیم نہیں کرتے تو ملکی معاملات میں کیسے کسی سیاسی جماعت کے ہاتھ پائوں باندھ کر ہرانے کو تسلیم کریں گے جوجماعت پابندیوں کاسامناکررہی ہو، اس کے خلاف میڈیا پر مہم کامنفی اثر ہوتاہے اورمہم چلانے والے ہی لعن طعن کاشکارہوکر اپنی ساکھ کھودیتے ہیںجیسا کہ کئی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ہوا ہے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں عوامی سطح پر تیز رفتاری سے شمولیت جاری ہے، ہر آنے والے دن پانچ ہزار ووٹر کا اضافہ ہورہا ہے جس میں دس فیصد اس کے کارکن بن جاتے ہیں۔ دوسری جماعتیں اس سلسلے میں ناکام ہیں،اس وجہ سے تمام حکومتی کارروائیاںبھی کسی نتیجے کا باعث نہیں بنتی جو نئی جماعتیں بنائی گئی ہیں مکمل تباہ حال ہیں۔پاکستان کو اس بھنور سے نکالنا ہوگا،وسیع تر مفاہمت اور شفافیت سے اس سلسلے میں آگے بڑھا جاسکتاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں