یورپی یونین سے علیحدگی‘برطانوی شاہی دور کی طرف لوٹنے کے خواہاں
شیئر کریں
برطانیہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون کا سلسلہ جاری رکھے گا،حکام
اسٹین نیل
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد عالمی سطح پر عالمی سیاست میں برطانیہ کاکردار کیاہوگا؟
رپورٹس کے مطابق گزشتہ دنوں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے گزشتہ دنوں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے پر دستخط کردیے اور اس حوالے سے ایک خط یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ڈسک کو بھی لکھ دیا ہے جس میں ان کو مطلع کردیاہے کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیاہے تاہم برطانیہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات قائم رکھے گا اوریورپی ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کا یہ فیصلہ حکمران کنزرویٹو پارٹی کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ کنزرویٹو پارٹی نے آخری دم تک اس فیصلے سے گریز کی کوشش کی اور اس میں ناکامی پر ہی کنزرویٹو پارٹی کے سابق سربراہ ڈیوڈ کیمرون کو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ دونوں ہی سے ہاتھ دھونا پڑے ، اس صورت حال میںبرطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے سامنے برطانوی عوام کی رائے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہیں تھا۔
وزیر اعظم تھریسا مے نے واضح کیاہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ عالمی سطح پر زیادہ وسیع کردار ادا کرسکے گا جبکہ یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی گروپ کا دعویٰ ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد اب برطانیہ کوپوری دنیا میں اپنا وہ سابقہ کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا جس کے ذریعہ برطانیہ دنیا کے وسیع علاقے پر حکمرانی کرتارہاتھا۔
دنیا میں سرکردہ کردار ادا کرنے کے حوالے سے برطانیہ کے کردار کی سوچ بلا شبہ ایک ایسی سوچ ہے جس کی21 ویں صدی میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ،ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنے نظریات پر نظرثانی کرتے ہوئے آمرانہ سوچ کو ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
معروف مو¿رخ ڈیوڈ اسٹارکے نے گزشتہ روز برطانوی چینل کے ایک پروگرام میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے حوالے اظہار خیال کرتے ہوئے اسے شاہ ہنری ہشتم کی روم سے علیحدگی کے واقعے سے تشبیہ دی اورکہاکہ اس کے بعد ہونے والی اصلاحات کے نتیجے میں برطانیہ کو عروج حاصل ہوتا گیااور اس کی سرحدیں پھیلتی چلی گئیں، اس طرح یورپی یونین سے علیحدگی کو بھی بادشاہت کے ایک نئے دور کا آغاز تصور کیاجانا چاہیے۔
یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کے بعد سے یورپی یونین کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو تبصرے اور تجزیے سامنے آرہے ہیں ان سب میں سابقہ شاہانہ سوچ نمایاں نظر آرہی ہے۔تھریسا مے نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے تمام ممالک کے ساتھ برطانیہ کے تجارتی تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے اور باہمی تعلقات کو مضبوط ومستحکم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔تاہم یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کے مستقبل، بادشاہت کے سابقہ تابناک اور سنہرے دور کی بحالی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ برطانیہ کے بین الاقوامی تجارتی امور کے وزیر لیم فاکس یورپی ممالک کے ساتھ برطانیہ کے تجارتی روابط کے حوالے سے جو مذاکرات کررہے ہیں اسے وہائٹ ہال کے حکام نے ”ایمپائر2.0 “ کا نام دیا ہے۔
دوسری جانب دولت مشترکہ میں شامل ممالک کے ساتھ تجارت پر خصوصی توجہ کی پالیسی سے کئی اور سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ان میں سب سے بڑا سوال زبان اور نسل کی بنیادپر تعلقات میں ترجیح دیے جانے کے حوالے سے پیدا ہونے والے اعتراض کا ہے،یہ برطانیہ کا بہت پرانا مسئلہ رہاہے اور اسے سابقہ توسیع پسندانہ شاہی دور کی باقیات کہا جاسکتاہے۔جبکہ یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی بادشاہت کے سابق کردار کی بحالی کے حوالے سے اپنے خیالات پر ندامت محسوس نہیں کرتے ۔
بادشاہت کے سابقہ کردار یا دنیا کے بڑے حصے پر بادشاہت کے دور کے کردار کے حوالے سے تشویش کااظہار کرنے والوں کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد اب یورپی ممالک کے ساتھ مستقبل کے تجارتی تعلقات کے حوالے سے بھی وہی شاہانہ سوچ کارفررکھی جائے گی ۔مثال کے طورپر بھارت کے ایک معروف سیاستداں ششی تھروور نے واضح الفاظ میں ہندوستان پر برطانیہ کی 200 سالہ حکمرانی کو لوٹ مار کا دور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں ”امپائر2.0 “ کاغبارہ زمین پر گرکر پھٹ جائے گا۔اس صورت حال میں برطانیہ کو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافے کے لیے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات ذہن میںرکھنا ہوگی کہ شاہی برتری قائم کرنے کی سوچ اب قابل عمل نہیں ہوگی۔
تجارت کے شعبے میں اب امریکا اور چین جیسے زبردست ممالک اپنے منصوبوںاور عزائم کے ساتھ سامنے موجود ہیں،یہ عالمی اقتصادی قوتیں نہ صرف یہ کہ برطانیہ کی ”امپائر2.0 “ کو خاطر میں لانے کو کبھی تیار نہیں ہوں گی بلکہ ان عالمی طاقتوں اور برطانیہ کے درمیان طاقت کا عدم توازن برطانیہ کی شاہی سوچ کے لیے نقصان دِہ ثابت ہوگا۔
موجودہ صورت حال میں سنجیدگی اور دانش کا تقاضہ یہی ہے کہ برطانیہ کے عوام کو سابقہ شاہی دور کی عظمت کاخواب دکھانے سے گریز کیاجائے اور انہیں اب حقائق کو سمجھنے کاموقع دینے کے ساتھ ہی اس فیصلے کے مثبت پہلوﺅںکے ساتھ ہی منفی پہلوﺅں سے بھی آگاہ کرنے اور انہیںذہنی طورپر اس کاسامنا کرنے کے لیے تیارکرنا چاہیے ،تاکہ بعد میں انہیں مایوسی کاسامنا نہ کرنا پڑے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی سیاستداں خاص طورپر یورپی یونین سے علیحدگی کی بڑھ چڑھ کر وکالت کرنے والے حلقے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں، یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر عملدرآمدکا کیا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں،تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اس مرحلے پر بالادستی اور حکمرانی اور تسلط کی سوچ بحیثیت مجموعی برطانیہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔