اسلامی اخوت کا مثالی مظہر، مواخات مدینہ
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
اسلامی اخوت کا ایک اہم اور مثالی مظہر مواخات ہے جس کا تذکرہ سیرت کی عام کتب میں ملتا ہے۔ عام طور پر مواخات کا ذکراس انداز سے کیا جاتا ہے کہ یہ محض انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارا پیدا کرنے کے لئے کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دونوں طبقوں کے درمیان گہرا رشتہ ا خوت استوار ہو گیا تھا۔ ہمارے بعض سیرت نگار حضرات نے اس کے معاشی پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جسے رسول اللہ ۖ نے عمل مواخات میں ملحوظ رکھا تھا۔
قلم کاروان اسلام آباد کی مطالعاتی نشست میں ”مواخات مدینہ”کے موضوع پرفریدالدین مسعود برہانی نے خطاب میں ایک نئے اندازسے اس واقعے کے حقائق کو بیان کرتے ہوئے بتایاکہ مواخات گزشتہ انبیاء کے زمانوں میں بھی ہوتی رہی تھی اوراگرچہ مکہ مکرمہ میں بھی مواخات ہوچکی تھی لیکن مدنی زندگی کے آغازمیں حضرت انس بن مالک کے گھر90افرادکے درمیان یہ عمل دوبارہ ہوا۔ یہ برادارانہ رشتہ معاشرے میں قوت کا سرچشمہ ثابت ہوتاہے۔مواخات کے باعث اقامتی تعلیمی ادارے (ہاسٹل)اورمتعاون رہائشی منصوبے(کواپریٹوہاوسنگ سوسائیٹیز)کی تاسیس تاریخ انسانی میں پہلی دفعہ عمل میں آئی۔مواخات میں ہم مزاج لوگوں کو بھائی بھائی بنایاگیا۔موالین کوآزادمسلمانوں سے جوڑاگیاجس سے ان کااحساس محرومی جاتارہااوروہ علمی و سیاسی قیادت کے مقامات تک بھی پہنچے۔کہیں دوتہذیبوں کے افرادکوجوڑاگیاتاکہ تہذیبی ہم آہنگی پیداہو،فاضل مقررنے بتایاکہ مواخات کے اس پہلوپر علامہ عبدالرحمن ابن خلدون الاندلسی نے تفصیل سے تجزیہ کیاہے۔اوس اورخزرج کے درمیان واقع خلیج کواس مواخات نے کلیة ختم کردیا۔مدینہ کے عرب قبائل یہودیوں کے مقروض رہتے تھے،مواخات کے بعد مہاجرین نے اپنے سرمایاانصارپرخرچ کیا۔انصارنے مہاجرین کی آبادکاری کی۔مدینہ میں امن قائم ہوگیا۔یہوداورمنافقین کی سازشیں مواخات کے باعث ناکام ہوئیں۔مقررین نے کہاکہ آج ستاون مسلمان ممالک کولڑاواورحکومت کے اصول پرقابوکیاجارہاہے جب کہ برطانیہ میں ایک ادارہ ایسے علمائے دین پیداکررہاہے جوجہادوقتال اورحکومت الہیہ کے قیام کی بجائے کرامتوں کاانتظاراوردعاؤں کی فضیلت ہی کافی گردانتے ہیں۔مواخات دراصل ایک تنظیم تھی جو ایک نئے عمرانی معاہدے کے تحت اسلامی ریاست میں باہمی پیاراورمحبت اورامن کاباعث بنی۔یہ صوت الوقت ہے اورصرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کل اقوام عالم اس مواخاتی عمل کی پیروی کریں۔ امن عالم کے قیام کے لیے مواخات اکسیرکادرجہ رکھتی ہے۔ آسمانی کتب کے بعدتعلیمات اسلامیہ کاسب سے بڑادرس مواخات ہے۔ان کے مطابق اس وقت دنیامیں شیطانی مواخات کامشاہدبآسانی سے کیاجاسکتاہے کیونکہ غزہ کے معاملے سب شریر قوتیں ایک ہوچکی ہیں۔ مواخات دراصل اقامت دین کاہی ایک اہم باب ہے۔ مسلمانوں کوقومیتوں اور اوطان کے بتوں کی پوجاپرلگادیاگیاہے اوراس کاتوڑ مواخات ہی ہے۔ ہمیں مساجدکی امامت صغری سے اقوام کی امامت کبری کی طرف آناہوگا۔ دنیامیں واقع ہونے والے شراورفساداورظلم و جورکے لیے امت مسلمہ روزمحشر سخت پکڑ میں ہوگی کیونکہ مسلمان ہی بنیادی طورپراس دنیاکی قیادت کے منصب پرفائزہیں۔
مواخات مدینہ منورہ میں ہجرت کے تقریبا پانچ ماہ بعد انصار و مہاجرین کے مابین کرائی گئی۔ اس مواخات کا آغاز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہوا۔ سیدنا انس کے گھر پر جو مواخات منعقد ہوئی اس میں ان انصار و مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی بنایا گیا جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا چنانچہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آتے رسول اللہۖ کسی نہ کسی انصاری کا بھائی بنا دیتے۔ مورخین اور سیرت نگار پنتالیس اور پچاس مہاجرین کا ذکر کرتے ہیں جنہیں اتنے ہی انصار کے ساتھ اس رشتہ میں وابستہ کر دیا گیا، اس طرح تقریبا پچاس مہاجر خاندان پچاس انصار خاندانوں کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک ہو گئے۔رسول اللہۖ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے جو منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ انصار و مہاجرین کے مابین اس تہذیبی اختلاف کو جلد از جلد ختم کیا جائے، اور کسی گروہ کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ اس اختلاف سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ مواخات کے عمل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انصار و مہاجرین مل جل کر ایک ساتھ رہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھیں اور ایک دوسرے کی اچھی عادات و اطوار کو اپنائیں۔ رسول اللہۖ نے تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ان حضرات کا عقیدہ اس قدر مضبوط کر دیا کہ اس کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب وجود میں آنے لگی اور انصار و مہاجرین کے مابین تہذیبی اختلاف بتدریج ختم ہو گیا۔ عبداللہ بن اْبی اور اس کے گروہ کے علاوہ یہودی بھی اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے درمیان باہمی نسلی تعصب کو ابھار کر یا مقامی اور غیر مقامی کا مسئلہ اٹھا کر ایک دوسرے سے لڑادیا جائے۔ لیکن منافقین اور یہودیوں کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں، اس لیے کہ رسول اللہۖ نے اس چیز کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا، چنانچہ آپ نے مواخات کرا کے منافقین کی اس قسم کی سازشوں کا سد باب کر دیا۔