ملزم جناح حاضر ہے!
شیئر کریں
رانگ نمبر
۔۔۔۔۔
عماد بزدار
(قسط :3)
اشتیاق صاحب نے بار بار کہا کہ کانگرس اور نہرو ایک پروگریسو انڈیا بنانا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے جناح اور لیگ کی نیگیٹو رجعت پسندانہ سیاست سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کیا کہتے ہیں:
”اور کانگرس کو بھی آخر میں لگا کہ اگر ہم مسلم لیگ کے ساتھ مل کر ایک یونایئٹڈہندوستان بناتے ہیں تو یہ دس سال کے بعد ختم ہوسکتا ہے اور اس کے اندر جناح صاحبas a politician اور ان کی باقی جو پارٹی ہے وہ ہمیشہ ایک نیگیٹو رول پلے کرتے ہیں تو جو ہم چاہتے ہیں کہ ایک ماڈرن پروگریسو سیکولر انڈیا ہے وہ بنے”۔
آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں کہ
”وہ ایک ماڈرن پروگریسو ایسا ہندوستان بنانا چاہتے تھے جہاں پہ ایک نئی طرز کا معاشرہ قائم ہو مثلا میں آپ کو ایک ایگزامپل دیتا ہوں پروفیسر صاحب کہ ہم بہت باتیں کرتے ہیں ناں اگر ہم منواسمرتی جو ہے ہندوؤں کی اس کو فالو کریں تو ایک برہمن اور ایک سو کالڈ اچھوت کو کبھی ایکول ( برابر ) ووٹ نہیں دیا جاسکتا انہوں نے یہ ساری آرتھوڈاکسی کو بریک کرکے سب کو ون مین ون ووٹ کی بنیاد پہ ایک ہندوستان بنایا”۔
اس ماڈرن اور پروگریسو اور سیکولر ہندوستان کی بنیاد کس طرح رکھی جارہی تھی۔ آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔
4 جون کو ماؤنٹ بیٹن نے جب اپنی پریس کانفرنس میں آزادی کے لیے 15 اگست کی تاریخ کااعلان کیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جوتشی اس دن پر اعتراض کریں گے ۔ 15اگست جمعہ کا دن ہندو جوتشیوں کی نظر میں منحوس دن تھا۔چنانچہ اس تاریخ کا اعلان ہوتے ہی پورے ہندوستان کے جوتشیوں نے زائچے تیار کرنے شروع کر دیے ۔ بلیری کولنز کے مطابق بنارس اور جنوبی ہند کے جوتشیوں نے فوری طور پر اعلان کر دیا کہ
15 August a date so inauspicious that India would be better advised to
tolerate the British one day longer rather than risk eternal
damnation
”15 اگست اتنا منحوس دن ہے کہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بہتر ہو گا کہ ہندوستان مزید
ایک دن برطانوی راج کی عملداری میں گزارے”۔
In Calcutta, Swamin Madamanand rushed to his celestial charts as
he heard the date announced.
For the love of God,' he wrote to Louis Mountbatten,do not give
India her independence on 15 August. If floods, drought, famine and
massacres follow, it will be because free India was born on a
day cursed by the stars.
کلکتہ کے سوامی مد مانند نے ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھا کہ”بھگوان کے لیے ہندوستان کو 15 اگست کو آزادی مت دیں۔اگر آئندہ سیلاب آئے ، خشک سالی ہوئی،قحط پڑا اور خونریزی ہوئی تو یہ محض اس لیے ہو گا کہ ہندوستان ایک ایسی تاریخ کو آزاد ہوا کہ جو ستاروں کے نزدیک ایک منحوس دن تھا”۔
ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی حکومت کے نام 8 اگست کو بھیجے گئے دہ ہفتہ وار رپورٹ میں اس معاملے کا ان الفاظ میں ذکر کیا
I was not warned that I ought to consult the astrologers before fixing the
day for the transfer of power, but luckily this has been got over by the
Constituent Assembly deciding to meet before midnight on auspicious 14 th
and take over power as midnight strikes which is apparently still an
auspicious moment
”مجھے اس بارے میں پہلے سے نہیں بتایا گیا تھا کہ مجھے انتقال اقتدار کی تاریخ کا تعین کرنے سے پہلے جوتشیوں
سے مشورہ کرنا چاہئے تھا۔لیکن خوش قسمتی سے اب یہ معاملہ یوں طے ہو گیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس
نصف شب سے پہلے یعنی 14 اگست کو نیک گھڑی کے اندر اندر ہوجائے گا جبکہ انتقال اقتدار کی رسم عین
نصف شب کو ہوگی اور وہ بھی تقریباً نیک گھڑی ہی ہوگی”۔
جوتشیوں کے اس قدر عمل دخل کو دیکھ کر ماؤنٹ بیٹن نے اپنے پریس اتاشی ایلن کیمبل جانسن کو باقاعدہ”جوتشی برائے گورنر جنرل”کے اضافی اور اعزازی عہدے پر فائز کر دیا
آزادی کی رات”فریڈم ایٹ مڈ نائٹ” میں لیری کولنز نے ، ڈاکٹر راجندر پرشاد کے گھر کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا جہاں وہ لوگ اکٹھے تھے جنہوں نے ہندوستان کی پہلی وزارت میں شامل ہونا تھا:
”نئی دلی میں ڈاکٹر راجندر پرشاد کے مکان کے باغیچے میں بھی آگ جل رہی تھی لیکن یہ آگ
مقدس ویدوں کی تعلیم کے مطابق روشن کی گئی تھی۔پنڈتوں نے منتر پڑھ کر اسے مقدس بنا دیا تھا۔
جن مردوں اور عورتوں کو آزاد ہندووستان کی پہلی وزارت میں شامل ہونا تھا، منتر پڑھنے کی آواز
کے بیچ وہ اس مقدس آگ کا طواف کر رہے تھے ۔اس کے بعد ان پر گنگا جل چھڑکا گیا، ماتھے پر
تلک لگایا گیا۔ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق یہ تلک تیسری آنکھ کی علامت ہے جو ظاہری چیزوں
کے پیچھے اصلیت کو دیکھنے کے لیے ہوتی ہے ۔ اس طرح وہ ان ذمہ داریوں کے لئے تیار ہوگئے جو
بہت جلد ان کے کندھوں پر آنے والی تھیں۔ اس کے بعد وہ ایک کے بعد ایک پارلیمنٹ ہاؤس میں
داخل ہوئے جو قومی جھنڈوں سے سجا ہوا تھا”۔
ان رسومات کے بعد روشن خیال ، ماڈرن ، پروگریسو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا۔اس کے برعکس نیگیٹو رول پلے کرنے والے رجعت پسند جناح کے ہاں آزادی کی تقریبات کیسے ہوئیں ۔ایک سادہ تقریب تھی جہاں ماؤنٹ بیٹن کی زبانی
I sat between Miss Jinnah and Begum Liaqat Ali Khan.They
both pulled my leg about the mid night ceremonies in Delhi
saying that it was astounding that a responsible Government
could be guided by astrologers in such an important matter.
میں فاطمہ جناح اور بیگم لیاقت علی کے درمیان بیٹھا۔ یہ دونوں دہلی میں ہونے والی نصف شب کی رسومات کا ذکر کر کے میرا مذاق اڑاتی رہیں کہ ایک ذمہ دار حکومت کو اتنے اہم معاملے میں جوتشیوں کے کہنے پر نہیں چلنا چاہئے ۔اس کے ساتھ ساتھ اشتیاق صاحب کو ہندوستان میں اچھوتوں کو ووٹ دینے کا حق نظر آتا ہے اور وہ بار بار کانگرس اور نہرو کو اس بات کا کریڈٹ بھی دیتے ہیں لیکن جناح کا یہ فیصلہ نظر نہیں آتا۔جس میں 10 اگست کو پاکستان کے آئین ساز اسمبلی کا جب افتتاحی اجلاس ہوا تو انہوں نے اس کاعارضی چیئرمین اچھوت رہنما جوگندر ناتھ منڈل کو بنایا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ کے پانچ وزیروں میں ایک وزیر یہی اچھوت رہنما جوگندر ناتھ منڈل تھے ۔ آزادی کے بعد پہلی کابینہ میں بھی”رجعت پسند”جناح نے اسی اچھوت رہنما کو بطور وزیر قانون شامل کیا۔(جاری)