دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا!
شیئر کریں
4 سال کی خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے کے بعد مینار پاکستان پر منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم متحد ہوکر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے اور دنیا میں اس کا وقار بحال کریں گے۔میرے دل میں رتی برابر بدلے یا انتقام کی تمنا نہیں میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ایسی کوئی چیز میرے دل میں نہ آئے، میرے دل میں صرف اس قوم کی خوشحالی کی تمنا ہے، آئین پر عمل کرنے والے ریاستی ادارے، جماعتیں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔، خواہش ہے کہ میری قوم کے لوگ خوش حال ہوجائیں، ان کی غربت ختم ہو اور روزگار ملے، انہیں باعزت پاکستانی بننے کا موقع ملے، اور ہمیں وطن کی خدمت کا موقع فراہم کرے جیسے ہم نے ماضی میں کی ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی ان تھک محنت اور کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کرنے کے باوجود مسلم لیگ ن کے رہنما مینار پاکستان پر انسانوں کا سمندر لانے میں ناکام رہے اور مینار پاکستان کا بڑا حصہ مسلم لیگی قافلوں کی راہ دیکھتا رہ گیا لیکن اس کے باوجود مینار پاکستان کے جلسے کو مسلم لیگ ن کے درپیش موجودہ مشکلات کے پیش نظر ایک بڑا جلسہ کہاجاسکتاہے،نواز شریف کی وطن آمد سے قبل مریم صفدر اور مسلم لیگی رہنما عوام کو یہ باور کرانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے کہ میاں نواز شریف وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ ان کی واپسی کی خبریں اخبارات میں نمایاں ہیں۔ ٹیلیویژن چینلز پر بھی میاں نواز شریف کی واپسی چھائی ہوئی تھی۔ ایک ایسا ماحول بنا یاگیاہوا جیسے آنے والے چند ماہ میں پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ عام آدمی کی مشکلات کم ہو جائیں گی، زندگی آسان ہو جائے گی، مہنگائی کم ہو گی، بجلی سستی ہو گی، قرضوں کا بوجھ کم ہو جائے گا، غربت میں کمی ہو گی، بے روزگاری ختم ہو گی، ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی۔ سبز پاسپورٹ کی عزت میں بہتری آئے گی۔ پاکستان کے عالمی طاقتوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ ملک ترقی کرے گا، دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوں گی، ڈالر نیچے آئے گا، روپے کہ قدر و قیمت میں اضافہ ہو گا، باعزت روزگار کے مواقع بڑھیں گے، امیر غریب قانون کے سامنے سب برابر ہوں گے۔ پاکستانیوں کو بتایا جا رہا تھا کہ ملک میں صرف ایک سیاسی جماعت کے سوا کوئی بھی ملک سے ہمدرد نہیں ہے، صرف ایک سیاسی جماعت ہی ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے، صرف ایک جماعت ہی ملکی معیشت کو مضبوط کر سکتی ہے، مسائل حل کر سکتی ہے، روپے اور سبز پاسپورٹ کی قدر میں اضافہ کر سکتی ہے۔ صرف ایک سیاسی جماعت ہی پاکستان کو ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے اس ملک کے کروڑوں لوگوں کو ہر مرتبہ سبز باغ دکھائے جاتے ہیں لیکن ہر مرتبہ چہرے بدل جاتے ہیں، کام وہی ہوتے ہیں۔ عام آدمی اس امید میں ہر روز جیتا مرتا ہے کہ کب سکوں کا سورج طلوع ہو گا، کب مشکلات کم ہوں گی، کب زندگی میں سکون آئے گا،اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے معلوم ہوتا کہ وہ اپنی وطن واپسی کے بعد واقعی اس ملک کے عوام کیلئے کچھ مثبت کرسکیں گے اور ان کی سمدھی محترم نے مریم صفدر اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کی جویہ تاثر دے رہے تھے کہ نواز شریف کے آتے ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور مہنگائی کے پر کترجائیں یہ کہہ کر پول کھول دی کہ پاکستان کے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے 10 سے15 سال کا عرصہ لگے گا۔ان کے اس بیان کے بعد مریم صفدر اور اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کو اپنا یہ بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا کہ نواز شریف اقتدار سنبھالتے ہی سب کچھ بدل دیں گے،ویسے خود نواز شریف نے بھی اپنے خطاب میں عوام کو کوئی ایسی امید نہیں دلائی ہے، نواز شریف کی تقریر سن کر صاف معلوم ہوتاہے کہ نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے کئی آپشنز پرمشتمل اپنی حکمت عملی طے کرلی ہے۔اب وہ اپنی اس حکمت عملی کے کارڈز سیاسی حالات دیکھ کر شو کریں گے۔انھوں نے وطن واپسی پر اپنے پہلے بیان میں ہی یہ واضح کردیا ہے کہ اب ن لیگ اسٹیبلمشنٹ کے حوالے سے کوئی سخت یا تناؤ یامخالفت والی پالیسی نہیں رکھے گی بلکہ وہ اسٹیبلمشنٹ کے ساتھ اپنے امور کو متوازن رکھے گی اور نواز شریف اب اسٹیبلمشنٹ کے حوالے سے ”نیوٹرل پالیسی“رکھیں گے۔ سیاسی انتخابی معاملات پر عوامی رابطہ مہم میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ماضی۔حال اورمستقبل کے معاملات پر تبصروں یا بیان بازی سے گریز کیا جائے گا.نواز شریف غیر فعال پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی قیادت کے حوالے سے ٹکراؤ یا ذاتیات کی سیاست سے گریز کریں گے۔نواز شریف مولانا فضل الرحمن۔ آصف زرداری سے اہم رہنماؤں کے ساتھ رابطوں کا سیاسی آپشن بحال رکھناچاہیں گے۔ اورن لیگ کا انتخابی ایجنڈا امن و امان۔معاشی بہتری اورعوامی مسائل کے حل پرمشتمل ہوگا۔اور.اب ن لیگ اپنی سیاست میں اسٹیبلمشنٹ کے حوالے سے معاملات پر تنقید یا بحث کرنے کے بجائے صرف ملکی وعوامی مساِئل کے حل کو شامل کرے گی۔ن لیگ کی آئندہ انتخابی مہم کے لیے اہم نعرہ ووٹ کو عزت دو نہیں بلکہ جمہوریت و پارلیمان کو مضبوط کرو ہوسکتا ہے۔ نواز شریف غالباً اب پی ڈی ایم طرز پر انتخابی اتحادی بنانے یا کسی اور اتحاد میں شامل ہونے سے غالباً گریز کریں گے کیونکہ اس وقت ملک میں موجود کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ اتحاد سے مسلم لیگ ن کو کوئی فائدہ پہنچنے کا امکان ہو،اس لئے ہوسکتاہے کہ.انتخابی اتحاد بنانے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھ کر کیا جائے۔ نواز شریف کے سمدھی محترم نے پہلے ہی روز یہ بات واضح کردی ہے کہ جو لوگ نواز شریف کی آمد کو کسی انقلاب کا نام دے رہے ہیں یہ ان کی سیاسی و مفاداتی مجبوری تو ہو سکتی ہے حقائق اس کی مطابقت میں ہرگز نہیں ہیں، نواز شریف کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں ہے جسے رگڑتے ہی عوامی دکھ دور اورملک کے مسائل حل ہو جائیں گے۔نواز شریف کو یہ احساس بھی ہوچکاہوگا کہ انتخابی کامیابی کے باوجود ان کو ایک مضبوط وزیراعظم کی حیثیت سے اس نوع کا فری ہینڈ نہیں ملے گا جو پارلیمانی جمہوریت یا خود بحیثیت قومی قائد نواز شریف کا تقاضا ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وطن واپسی کی مبینہ ڈیل کے دوران اس حوالے سے انہوں نے معاملات طے ہونے سے پہلے کچھ پوائنٹس ضرور اٹھائے تھے مگر ان پر واضح کر دیا گیا کہ اب آپ بڑی بڑی تمنائیں پالنے سے باز رہیں۔ یوں افہام و تفہیم کے ماحول میں معاملات طے ہو گئے۔ تاہم معاملات طے ہونے کے باوجود نواز شریف اورمسلم لیگی حلقوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ ان کا پالا جس شخص سے پڑا ہے وہ بھی قسمت کا دھنی ہے، پی ٹی آئی کے چاہنے والے خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور سوشل میڈیا پر بہت ووکل بھی ہیں لہٰذا اپنے حریف کو ایزی نہیں لینا چاہئے تاہم جب الیکشن ہوں گے تب ہی حقیقی معنوں میں یہ معلوم ہوسکے گاکون واقعی
مقدر کاسکندر کہلائے گا لیکن اس شخص کو میدان سے باہر رکھ کر میدان مارنے کی کوششوں کے انتہائی منفی اثرات بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں اور نواز شریف کو عوام ایک دفعہ پھر اپنا وزیراعظم منتخب کر بھی لیتے ہیں تو بھی نواز شریف کو اپنی پارٹی کو ازسر نو منظم کیا جانا چاہئے اور خامیاں دور کرنی چاہئیں۔
اب جبکہ نواز شریف بلند و بانگ واپس آ چکے ہیں۔ ان کی جماعت کی خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہیں لیکن کیا مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے پاس کوئی جواب ہے کہ شہباز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں جو کچھ ہوا ہے کیا وہ سب میرٹ پر تھا، کیا اس دور میں ملکی خدمت نہیں ہو سکتی تھی یا مسلم لیگ ن شہباز شریف کے دور حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور شہباز شریف کے اپنے بھائی جان سے مشوروں کیلئے بار بار لندن جانے کے باوجود نواز شریف کو اپنے بھائی کی درگت پر کوئی رحم نہیں آیا اور انھوں نے ملک کے مصائب کا خاتمہ کرنے کا فارمولہ بتاکر نہیں دیا،سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن نواز شریف سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے، اگر نواز شریف کسی بھی وجہ وزیر اعظم نہ ہوں تو کیا مسلم لیگ حکمرانی کے دعوے سے دستبردار ہو جائے گی۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ گذشتہ 25-30برسوں کے دوران مختلف سیاسی حکومتوں کے دور میں ملکی معیشت کمزور، ادارے تباہ اور قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں آج بھی یہی دعوے کرتی ہیں کہ ساری ترقی ان کی وجہ سے ہے۔ کاش کہ ہم شخصیت پرستی سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آئیں، ملکی مسائل، ضروریات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر سوچنا شروع کریں اور یہ سمجھ جائیں کہ ہمیں حقیقی معنوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں حکومت کر سکتی ہیں تو اکٹھے ہو کر وفاق میں کام کیوں نہیں کر سکتیں، کیوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے خاندان کے نام ہر سیاست کرتی ہیں کیوں متبادل قیادت کو سامنے نہیں لایا جاتا۔کاش نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، اے این پی والے اور دیگر جماعتوں کے بڑے اس حوالے سے سوچنے کی کوشش کریں۔
ایس ایم ظفر بھی اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے
معروف قانون دان،پارلیمنٹرین اور حقوق انسانی کے علمبردار سابق وفاقی وزیر ایس ایم ظفر بھی اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے(اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ مرحوم طویل عرصے سے علیل تھے۔ ان کاشمار انتہائی قابل قانون دان اور علم و دلیل اور شائستگی سے گفتگو کرنے والے انسانوں میں ہوتا تھا،ایسے لوگ اب ڈھونڈنے سے بھی بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ 6 دسمبر 1930کو رنگون برما میں پیدا ہونے والے ایس ایم ظفر کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ آپ کی کتاب Democracy and Islam in Hisotrya تحقیقی اور تاریخی حوالہ جات کے ساتھ ایک منفرد کتاب ہے، ”میرے مشہور مقدمے“ بھی خاصی مقبول ہے اور سیاست، صحافت اور قانون کے طالب علموں کے لیے اہم ہے۔ آپ قومی اور بین الاقوامی امور پر ملکی اور غیر ملکی جرائد میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ آپ صرف 35برس کی عمر میں جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر قانون رہے۔ 19ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اْنہوں نے جنگ بندی کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرایا۔ ایس ایم ظفر نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن سے بھی خطاب کیا۔ بعد ازاں جنرل پرویزمشرف کی بنائی ہوئی پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے اور انہیں 2006 میں سینیٹر منتخب کیا گیا۔ وہ 2012 تک سینیٹر رہے، پھر جب پرویز مشرف نے وردی اتارنے سے انکار کردیا تو آپ کے تعلقات اْن سے خراب ہوگئے، آپ نے 2018میں سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا تھا۔ آپ نے 2004سے 2012 تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمے داریاں بھی ادا کیں۔ آپ کو 2011میں صدارتی ایوارڈ نشانِ امتیاز سے نوازا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور وکیل علی ظفر ان کے صاحبزادے ہیں اور انہیں پی ٹی آئی نے سینیٹر بنایا تھا۔ ایس ایم ظفر کا سانحہ ارتحال ایک ناقابلِ تلافی قومی نقصان ہے۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو یہ ناقابل تلافی صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ اور صبر عطا فرمائے(آمین)۔