میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حماس اسرائیل کی حلق میں اٹک گیا

حماس اسرائیل کی حلق میں اٹک گیا

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۵ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

غزہ پر مسلسل چھٹے روز اسرائیل کی اندھا دھند بم باری جاری رہی جبکہ دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کیلئے عالمی سطح پر کوششیں تیز کردی گئی ہیں لیکن فی الوقت یہ کوششیں زیادہ تر خلیج کے ممالک کررہے ہیں اور امریکہ اور یورپی ممالک کا ان کوششوں میں کوئی ہاتھ نظر نہیں آتا،غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائیوں کی ابتدا ہی میں جس بے ڈھنگے اور بے شرمی کے انداز میں جارح اور سفاک اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے حماس کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی تھی اس نے حماس اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس قدر مشتعل کردیاہے کہ اب انھیں یقین ہے کہ جنگ بندی کیلئے ان کی بات پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ہوگا، اور اسی خیال کے تحت انھوں نے خلیج میں اپنے باجگزار ممالک کو حماس کو منانے کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ایک طرف اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی چاہتاہے اور دوسری جانب اس نے غزہ پر زمینی حملے کی تیاری کرلی ہے اور اس مقصد کیلئے، 3لاکھ صہیونی فوجی، ٹینک اور بھاری فوجی سازوسامان سرحد پر پہنچادیا گیا ہے۔غزہ کی آبادی پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری اور توپخانے سے گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں اور ہرطرف ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا،اطلاعات کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کلسٹر بموں، عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں (وائٹ فاسفورس) کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کے بعد حماس نے متنبہ ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر بمباری نہ روکی تو وہ اسرائیل کے شہر حیفا پر بھی میزائل داغ دے گا،اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے شمالی شہر میں 15سے 20پیرا گلائیڈز کے ذریعے سے حماس کے ارکان کے داخل ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے، اسرائیلی حکام نے لبنان سے فضائی مداخلت کا الرٹ بھی جاری کیاہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ کی لڑائی شام اور لبنان کی سرحد تک پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل میں گزشتہ روز10 گھنٹے کے وقفے کے بعد سائرن بجنا شروع ہوگئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کئی علاقوں میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں تل ابیب پر راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ حماس کے حملے نے اسرائیل کو پاگل کر دیا۔ اسرائیل اپنے بارے میں یہ سمجھتا تھاکہ اُس کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، اُس کا دفاعی نظام، اُس کے جدید ہتھیار، فوج، سیکورٹی اور انٹیلی جنس نظام اُسے ایک طاقت ور ملک بناتے ہیں،لیکن حماس کے اچانک حملے نے اسرائیل کے پورے کے پورے دفاعی اور انٹیلی جنس کے نظام کو ننگا کر دیا ہے۔حماس کے حملوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے اسرائیل چھوڑ کر بھاگنا شروع کردیاہے اور گزشتہ چند دنوں میں لاکھوں یہودی ملک چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ حماس کے حملوں سے خوفزدہ اور ہراساں اسرائیلی یہودی بے سر و سامانی کے عالم میں سڑکوں پر دوڑتے پھر رہے ہیں اور فلسطین کے مسلمان مجاہد اسرائیلی علاقوں کی سڑکوں پر اسرائیلیوں سے چھینا ہوا اسلحہ لہراتے اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے آزادی سے محو حرکت ہیں۔
مسئلہ فلسطین دوچار برس کی بات نہیں، سات دہائیوں پر مشتمل جبر و استبداد کی طویل داستان ہے۔ ان سات دہائیوں میں دہشت گرد صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے اہل فلسطین کے علاقوں پر قبضے کیے گئے۔انھیں ان کے ہی گھروں اور زمینوں سے نکالا گیا، قبلہ اول بیت المقدس چھینا گیا، ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، کئی بار فلسطینیوں پر گولے برسائے گئے۔انھیں آگ اور خون میں نہلایا گیا، مقدس سرزمین کو لہولہان کیا گیا، عورتوں کی عزتیں پامال ہوتی رہیں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کی لاشیں ملتی رہیں لیکن عالمی ضمیر خواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہا، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے کبھی کھل کر اس دہشت گرد صہیونی ریاست کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی۔اس کی بہیمانہ کارروائیوں کے خلاف کبھی پرزور مذمت نہیں کی۔ وقت گزرتا رہا اور فلسطینیوں کا خون بہتا رہا۔ نہتے فلسطینی بے سروسامانی کے عالم میں صہیونی ریاست کی دہشت گردی برداشت کرتے رہے۔ اور ٹینکوں، توپوں، لڑاکا طیاروں اور میزائلوں کے مقابلے میں فلسطینی نوجوان غلیلوں سے لڑتے رہے۔اسلامی دنیا اور خصوصاً عرب ممالک نے اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں اور پھر برملا اظہار شروع کردیا اور دنیا سمجھ بیٹھی تھی کہ فلسطینیوں کا جذبہ آزادی ٹھنڈا پڑ چکا ہے، اب اس میں صیہونیوں کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔اسرائیل کے سرپرست اور سہولت کار بھی مطمئن تھے کہ ان کا ناجائز بغل بچہ ”اسرائیل“ اب محفوظ ہے، اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا، صہیونی قیادت بھی”ریلیکس“تھی، مسلم ممالک بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کرچکے تھے۔خاص کر او آئی سی مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین پر مردہ گھوڑا ثابت ہوئی، بعض اسلامی ممالک نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے اور بعض اسلامی ممالک تعلقات قائم کرنے جارہے تھے۔ مگر حماس کی ایک کارروائی نے سب کچھ الٹ کے رکھ دیا۔حماس کے اس اچانک لیکن جاندار حملے نے اسرائیلی دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل جو کئی دہائیوں سے جدید ترین اسلحہ، ساز و سامان اور ٹیکنالوجی کا پاور ہاؤس بنا ہوا تھا، جس کے پاس دنیا کی طاقتور ترین مسلح افواج اور بہترین انٹیلی جنس ایجنسی تھی، سب زمین بوس و خاک آلود ہوگیا، اللہ نے اس کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا۔فلسطین جو دنیا کا غریب ترین ملک ہے اور پچھلی سات دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، جو اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا اس لاغر اور کمزور فلسطین نے، طاقتور ترین دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ صہیونی قیادت اور ان کے سہولت کار ابھی تک زخم چاٹ رہے ہیں۔حماس کے حملوں نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ جو اسرائیل دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، جس نے اسمارٹ بارڈر سسٹم پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا، جس نے سینسرز اور سرنگوں کی تعمیر پر خطیر رقم خرچ کی۔جس کے پاس بہترین دفاعی نظام موجود تھا، اس کے باوجود وہ حماس کے حملوں کو نہیں روک پایا۔ حماس کے حملے صہیونیوں پر اللہ کا عذاب اور قہر بن کر نازل ہوئے، بیشک اللہ رب العزت ہر شے پر قادر ہیں، وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کے لشکروں کو ملیا میٹ کرسکتا ہے اور کرچکا ہے تو اسرائیل جیسی طاقتور ریاست کا غرور بھی خاک میں ملا سکتا ہے۔
ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے جب اسرائیلی فوج کے غربِ اردن میں جنین پناہ گزین کیمپ پر بڑے حملے کے بعد، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ”یہ آپریشن ”مساوات میں تبدیلی“کی علامت ہے۔ مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے چھوٹے پیمانے پر چھاپوں کے بجائے، جس میں فلسطینی شہری اکثر شہید یا زخمی ہوتے ہیں۔فوج جنین میں مختلف مسلح گروہوں کے قائم کیے گئے ہتھیاروں کے ذخیروں، بم بنانے کی فیکٹریوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے کام کرے گی“۔ نیتن یاہو نے اسے کھیل کا پانسا پلٹنے والی حکمت عملی قرار دیا تھا جو مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں یا شہریوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو جنین یا کسی دوسرے شہر کو اڈے کے طور پر استعمال کرنے سے روکے گی لیکن یہ سب کی سب منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔اسرائیلی تدبیریں پِٹ گئیں۔ اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دینے کی غرض سے ”الاقصی فلڈ آپریشن، طوفان الاقصیٰ“ کا آغاز منتقم اللہ کا قہر بن کر کردیا ہے۔حماس کا تازہ حملہ عمل نہیں بلکہ ان تمام صہیونی بدمعاشیوں کا انتہائی مجبوری کے عالم میں دیا جانے والا ردِعمل ہے۔ایک اہم بات یہ کہ پہلے فلسطینیوں کو دیگر عرب ممالک سے بہت امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں، اب جب سے عربوں کو اسرائیل پہ پیار آیا ہے اور وہ دھڑا دھڑ اس سے سفارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے اس کے قبضے کو جواز فراہم کرنا شروع ہوئے ہیں تب سے فلسطینیوں کی رہی سہی امیدیں بھی بجھتی چلی جارہی تھیں۔اب انھیں لگ رہاتھا کہ جو اژدھا انھیں 1948 سے لقمہ لقمہ نگلتا چلا جارہا ہے، اپنوں کی بے وفائیوں کی وجہ سے وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ انھیں یکایک ہڑپ کرلے گا۔ اس لیے اب مارو یا مرجاؤکا نعرہ لگاتے ہوئے فیصلہ کن کارروائی کرنا گزیر ہوچکا تھا۔ ان کے پاس اب کوئی چارہ یا دوسرا راستہ نہیں تھا۔امریکہ ہمیشہ کی طرح ظالم اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے، اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے کیوں کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حماس کے الاقصیٰ آپریشن میں ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 1300ہو گئی ہے۔حماس کی چابک دستی دیکھتے ہوئے سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتریس نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ ان کے زبانی بیان کی اسرائیل اور امریکہ کے سامنے کوئی اہمیت نہیں دکھاوے کیلئے یہ بیان جاری کردیا ہے کہ غزہ میں اسکولوں، اسپتال اور اقوام متحدہ مراکز کو نشانہ نہ بنایا جائے۔انہوں نے ایک بیان میں غزہ کو فوری پانی، خوراک اور فیول کی سپلائی کے لیے راستہ دینے کا مطالبہ کیاہے۔انتونیو گوتریس کا کہنا  ہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے 92 سہولت مراکز میں  2 لاکھ 20 ہزار فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔جبکہ اسرائیلی بمباری کے باعث بے گھر فلسطینیوں کی تعداد 3 لاکھ 38 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کا عملہ غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے کام کر رہا ہے۔جبکہ مصر میں مغربی ممالک کی حمایت سے قائم حکومت نے غزہ کے پناہ گزینوں کو محفوظ راہداری فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اس سے مغرب کے پروردہ خلیج کے سربراہان مملکت کی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں