آئی ایم ایف کی سربراہ نے حکومت کا جھوٹ کھول دیا
شیئر کریں
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے گزشتہ روز پاکستان کے نگراں وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران واضح الفاظ میں یہ کہہ کر نگراں حکومت اور سابق وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ہر دلعزیز وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا جھوٹ بیچ چوراہے پر آشکار کردیا ہے کہ ہم نے نگراں وزیراعظم انوارلحق کاکڑ کو صاف بتادیاہے کہ ٹیکس جمع کرنے میں کمزوروں کا تحفظ کیا جائے اور امیروں سے ٹیکس لیے جائیں۔آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا کہ معاشی امور پر ان کی پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات انتہائی اچھی رہی۔’ہم نے (معاشی) استحکام کو یقینی بنانے، پائیدار اور جامع ترقی کو فروغ دینے، محصولات میں اضافے کو ترجیح دینے اور پاکستان میں (معاشی طور) پر کمزور افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت پر اتفاق کیا۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ بڑھتی مہنگائی کے دور میں امیروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرے اور غریبوں کو تحفظ دے جبکہ سابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور اس کے بعد موجودہ نگراں حکومت یہ کہہ کر عوام کو ٹرخاتی رہی ہے کہ وہ تو غریب عوام کو سہولت دینا چاہتے ہیں لیکن آئی ایم ایف نہیں مان رہا اور آئی ایم ایف سے قرض کی مزید قسط لینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے جوتے چاٹتے رہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں سالانہ مہنگائی اگست کے مہینے میں 27.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس سے غریب عوام کا گھریلو بجٹ شدید متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ جاری ہے۔معاشی مشکلات کی شکار حکومت نے شروع میں عوام کو کچھ ریلیف دینے کے وعدے کیے لیکن بعد میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے ریلیف کے امکان کو مسترد کر دیا۔ لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات کے بعد نجی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ غریبوں کو سہولت دینا اور امیروں سے ٹیکس کی وصولی اس کے مطابق ہے، جو پاکستان کے عوام ملک کے لیے دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پروگرام میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ برائے مہربانی امیروں سے مزید ٹیکس وصول کریں اور پاکستان کے غریب لوگوں کا تحفظ کریں، مجھے یقین ہے کہ یہ اس کے مطابق ہے جو پاکستانی عوام ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ملاقات کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے ایک بیان میں آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا کہ ان کی پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ ملک کے معاشی حالات سے متعلق ملاقات ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے استحکام کو یقینی بنانے، پائیدار اور جامع ترقی کو فروغ دینے، ٹیکس وصولی کو ترجیح دینے اور پاکستان میں معاشی طور پر کمزور افراد کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت پر اتفاق کیا۔دوسری جانب نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی ملاقات کے بارے میں جاری ایک پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کے ساتھ تعمیری بات چیت کی، جس میں پاکستان میں معاشی استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے باہمی تعاون کو بڑھانے پر زور دیا گیا تاہم، انھوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ امیروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے اور غریبوں کو رعایت دینے سے متعلق کرسٹالینا جارجیوا کی ہدایت کا ذکر ہی حذف کردیاہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ موجودہ نگراں حکومت بھی اشرافیہ یعنی ملک کی 98 فیصددولت پر قابض طبقے کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھانے کو تیار نہیں جس سے ان کی جمع دولت میں کسی قسم کی کمی ہونے کا خدشہ ہوکیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں خود ان کی اور ان کے ساتھیوں پر بھی ضرب پڑ سکتی ہے، لمبی لمبی پرتعیش گاڑیاں ان سے چھن سکتی ہیں اور انھیں ہرماہ ملنے والا لامحدود پیٹرول بند ہوسکتاہے،انھیں بھی اپنے کمرے ٹھنڈے رکھنے کیلئے چلائے جانے والے ایئر کنڈیشنر پر خرچ ہونے والی بجلی کابل بھی اداکرنا پڑسکتاہے اور اگر ایسا ہوگیاتو عام آدمی اور اشرافیہ میں فرق کیا رہ جائے گا۔واضح رہے کہ 12 جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام اور اس کے تحت فوری طور پر تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کی منظوری دی تھی، جس کے بعد 2 سہ ماہی جائزے کے بعد دیگر رقوم دی جائیں گی۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کے دوران پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے 3 بلین امریکی ڈالر کے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کی منظوری پر اظہار تشکر کیا۔انوار کاکڑ نے ایم ڈی آئی ایم ایف کو حکومت پاکستان کی جانب سے ملکی معیشت کے استحکام اور بحالی کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیاکہ ان اقدامات کا مقصد پائیدار اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے ایک مستحکم اور سازگار ماحول پیدا کرنا ہے، اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقوں کی حفاظت پر بھرپور توجہ دی گئی ہے جو کہ قطعی جھوٹ ہے کیونکہ اب تک نگراں حکومت نے معاشرے کے کمزور طبقے کو کسی طرح کی ریلیف دینے کا کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے معاشرے کے کمزور طبقات کی زندگی اجیرن کرکے انھیں خود کشی پر مجبور کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
جہاں تک نگران حکومت کے عارضی ہونے کا تعلق ہے تو ہمارے ملک میں عارضی کو عارضہ بناکر مدت طویل سے طویل تر کرتے دیر نہیں لگتی، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتیں سامنے کی مثالیں ہیں۔شہباز شریف صاحب اور ان کے اتحادیوں کی جماعت کو چوں کہ انتخابات میں حصہ لینا ہے، چنانچہ پیٹرول، بجلی اور گیس وغیرہ کے نرخوں میں اضافہ کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے۔ بلکہ وہ یہاں تک کہتے ر ہے ہیں کہ ایک دو بار قیمتیں بڑھاتے ہوئے شہباز شریف رو بھی پڑے تھے، اور وہ جیب سے رومال نکال کر آنسو پونچھ اور ہچکیاں روک کر پیٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی دستاویز پر دستخط کردیتے تھے۔ وہ تو کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے پر بھی تیار تھے، لیکن انہیں سمجھایا گیا کہ مہنگائی سے نڈھال عوام ایسے کسی روح فرسا منظر کی تاب نہ لا پائیں گے، یہ سُن کر انہوں نے ارادہ بدل دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نہیں عوام کے کپڑوں کی بات کی تھی، جو سچ کر دکھائی۔ یعنی یہ تو طے ہوا کہ وہ وعدے اور ارادے کے پکے ہیں۔شہباز شریف کے پاس آنسوؤں کے علاوہ ایک عدد پتھر بھی تھا، جسے قیمتیں بڑھاتے ہوئے بقول خود ان کے وہ دل پر رکھ لیا کرتے تھے۔ یہ عوام اور ملک کی فلاح کے لیے حقیقی اصلاحات کا وہ بھاری پتھر نہیں تھا جسے ہر حکومت چوم کر رکھ دیتی ہے، بلکہ اکثر حکمران تو اس پتھر کو چومنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں کہ کہیں ویڈیو وائرل نہ ہوجائے۔ یہ وہ پتھر ہے جسے قیمتیں بڑھاتے ہوئے جیسے ہی دل پر رکھا جاتا دل یکایک سنگ ہوجاتا۔ یہ پتھر مہنگائی بڑھانے کے علاوہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر دستخط کرنے، روٹھے سیاسی اتحادیوں کو مناتے ہوئے اور نگران وزیراعظم کی تقرری کے وقت زیربحث ناموں کے درمیان ’اچانک‘ طے شدہ نام سامنے آنے اور اسے منظور کرتے ہوئے بھی کام آتا رہا ہے۔نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور ان کی حکومت کو انتخابات میں حصہ نہیں لینا اور کبھی لیا بھی تو رائے دہندگان سے کیا لینا دینا انہیں ان کا حصہ مل ہی جائے گا لہٰذا انہیں نرخ بڑھاتے ہوئے نہ آنسو بہانا پڑتے ہیں نہ دل پر پتھر رکھنے کی ضرورت ہے۔ شنید ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی پتھر ہے بھی نہیں شہبازشریف صاحب جاتے جاتے یہ پتھر بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ لیکن شہبازشریف کی جانب سے دل پر پتھر رکھنے کی باتیں محض باتیں اور عوام کو بیوقوف بنانے کے حربے ہیں اگر وہ عوام کے اتنے ہی ہمدرد ہوتے تو پاکستان میں اپنے لامتناہی اثاثوں کا کچھ حصہ اس غریب قوم کی مشکلات آسان کرنے کیلئے دیدیتے لیکن ایسا تو وہ کرتا جسے اس ملک اور اس ملک کے عوام سے محبت ہوتی،شریف فیملی کے لوگ تو صرف حکمرانی کی غرض سے اس ملک میں آتے ہیں اورحکمرانی ختم ہوتے ہی پہلی فلائٹ سے برطانیہ کا رخ کرتے ہیں کہ وہاں کا ٹھنڈا اور پرسکون موسم انھیں بہت پسند ہے، انوارالحق کاکڑ نے جس طرح اپنا منصب سنبھالتے ہی پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان کے دورِ نگرانی میں ہم پاکستانیوں کو وقتاً فوقتاً ایسے تحفے ملتے رہیں گے اور کاکڑ صاحب کے منصب سنبھالتے ہی لڑکھڑا جانے والے عوام سنبھل نہیں پائیں گے۔ پھر ہوگا بس یہ کہ موصوف تاریخ میں نگراں وزیراعظم کے بجائے گراں وزیراعظم کے نام سے یاد رکھے جائیں گے، بشرط یہ کہ یاد رکھنے کے لیے عوام زندہ بچ جائیں۔