سارہ شریف کے قاتل قانون کے شکنجہ میں نہ کسے جاسکے
شیئر کریں
اے ایچ جعفری
٭برطانیہ کی کاؤنٹی سرے میں مردہ پائی جانے والی 10 سالہ سارہ شریف کے والد کے آخری وٹس ایپ پیغامات منظر عام پر آ گئے ہیں، جو انہوں نے شہر میں ایک پاکستانی کو بھیجے تھے
٭برطانوی میٹرو پولیٹن پولیس، انٹرپول سمیت پاکستانی پولیس تابڑ توڑ چھاپوں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور الیکٹرونک نگرانی کے باوجود قاتلوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ناکام
٭ مبینہ قاتل باپ عرفان شریف، ان کی اہلیہ اور مقتولہ سارہ شریف کی سوتیلی والدہ بینش اور عرفان کے بھائی فیصل کا کوئی اتا پتا اب تک نہیں چل سکا ہے
٭اسلام آباد پہنچنے کے بعد عرفان شریف نے برطانوی پولیس کو فون کرکے بتایا کہ ان کی بیٹی سارہ شریف کی لاش ہیمنڈ روڈ پر واقع گھر میں موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو عمر برطانوی لڑکی سارہ شریف کے مبینہ قاتل پاکستانی باپ، سوتیلی ماں اور چاچا کو تا حال گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ برطانوی میٹرو پولیٹن پولیس، انٹرپول سمیت پاکستانی پولیس تابڑ توڑ چھاپوں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور الیکٹرونک نگرانی کے باوجود قاتلوں کے خلاف شکنجہ کسنے اور گھیرا تنگ کرنے میں ناکام ہے۔ برطانیہ کی کاؤنٹی سرے میں مردہ پائی جانے والی 10 سالہ سارہ شریف کے والد کے آخری وٹس ایپ پیغامات منظر عام پر آ گئے ہیں، جو انہوں نے شہر میں ایک پاکستانی کو بھیجے تھے جو اپنی فیملی کیلئے برطانیہ سے براستہ بحرین پاکستان سفر کیلئے یکطرفہ فضائی ٹکٹ طلب کرنے کیلئے تھے۔ برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ سرے میں مسلم کمیونٹی اور پاکستان سے خاندانی جڑیں رکھنے والے افراد کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہیں لیکن اب تک مبینہ قاتل باپ عرفان شریف، ان کی اہلیہ اور مقتولہ سارہ شریف کی سوتیلی والدہ بینش اور عرفان کے بھائی فیصل کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا ہے۔ سارہ شریف کے قاتلوں کو پکڑنے کیلئے لندن میٹرو پولیٹن پولیس، انٹرپول یو کے اور پاکستانی پولیس اور سکیوریٹی اداروں کا تال میل موجود ہے لیکن عرفان شریف اور اس کی بیوی بینش کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا ہے، جس پر برطانوی پولیس نے لندن کے باسیوں اور جاننے سننے والوں سے عالمی اپیل کی ہے اور اس کیس میں آپریشن یونیسن کا حوالہ دیتے ہوئے 101 پر کال یا 0800 555 111 پر کرائم اسٹاپرز سے رابطہ کرنے کا کہا ہے۔ عرفان شریف نے آٹھ اگست کی رات 10 بجے سے کچھ دیر قبل کاروباری شخص ندیم ریاض کو پیغام بھیجا، جس میں فوری طور پر اسلام آباد کے لیے پرواز کے آٹھ ٹکٹوں کی بکنگ کی درخواست کی گئی تھی۔ منی ٹرانسفر کی دکان اور ایڈہاک ٹریول ایجنسی کے مالک ندیم ریاض کو اس وقت اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ جس کلائنٹ کو 11 سال سے جانتے ہیں، وہ اپنے پیچھے ایک بچی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ریاض نے دی ٹائمز کو بتایا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں جتنی جلدی ممکن ہو سکے ٹکٹ چاہیے۔میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان کے کزن کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ نارمل اور معمول کے مطابق لگ رہے تھے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کس قسم کے ٹکٹ چاہئے تو عرفان شریف نے صرف دو لفظی جواب دیا یک طرفہ۔41سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 29 سالہ بینش بتول اور ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک تفتیش کے لیے مطلوب ہیں لیکن پاکستان میں ان کے رشتہ داروں کے گھر چھاپوں کے باوجود تینوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ندیم ریاض نے کہا کہ عرفان شریف چند منٹوں کے اندر واٹس ایپ پر اپ ڈیٹس چاہتے تھے اور رات 10 بج کر 12 منٹ پر انہوں نے پوچھا کہ کوئی خوش آئند بات؟24 گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد عرفان شریف دوپہر دو بجے ہیتھرو ایئرپورٹ سے براستہ بحرین اسلام آباد جانے والی پرواز میں سوار ہوئے۔ ایک سے 13 سال کے درمیانی عمر کے پانچ بچے، بینش بتول اور فیصل ملک بھی ان کے ساتھ تھے۔آخری وقت پر خریدے گئے پرواز کے ٹکٹوں کی قیمت پانچ ہزار 180 پاؤنڈ تھی۔اسلام آباد پہنچنے کے بعد عرفان شریف نے برطانوی پولیس کو فون کرکے بتایا کہ ان کی بیٹی سارہ کی لاش ہیمنڈ روڈ پر واقع گھر میں موجود ہے۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلتا ہے کہ 10 سالہ سارہ کو کافی عرصے پرانے گہرے زخم موجود تھے لیکن اسکول کی جانب سے اس معاملہ پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کہ یہ زخم کس طرح لگے؟ میڈیائی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سرے کاؤنٹی کونسل کے مقامی اسکول، جہاں سارہ زیر تعلیم تھی، کی ایڈمنسٹریشن نے سارہ کے جسم پر زخموں کی خبر کی تصدیق کی، جس پر سارہ کا موقف تھا کہ وہ بائیک سے گر گئی تھی لیکن اگلے ہفتے ہی سارہ کے اسکول کو پتا چلا کہ اس نے اسکول آنا ترک کردیا ہے اور اس کو گھر پر ہی تعلیم دی جارہی ہے۔
ادھر پاکستان میں مقیم سارہ کے دادا محمد شریف نے بتایا کہ ان کا بیٹاعرفان گزشتہ ماہ کے شروع میں صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں اپنے اہل خانہ کے گھر گیا تھا، جس کے بعد وہ دوبارہ لاپتہ ہو گیا۔جہلم کی پولیس نے کشمیر کے ضلع میرپور میں بھی ایک جگہ پر چھاپہ مارا لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اس خاندان کے کسی فرد تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے نے انہیں سارہ کی موت کے بارے میں نہیں بتایا۔انہوں نے سنڈے ٹائمز کو بتایا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ خود کو پیش کر دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو حل کریں کیونکہ بار بار پولیس کے چھاپوں کی وجہ سے ہمارے گھر کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔ جرأت کے قارئین کیلئے یاد دہانی کرواتے چلیں کہ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ عرفان شریف کو پکڑنے کے لیے زمینی سطح پر کوئی تفتیش نہیں کر رہے تاہم ان کا انٹرپول شعبہ معاملے کو دیکھ رہا ہے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق عرفان شریف کو ڈھونڈنے کے بعد ان کو برطانیہ بھجوانے کے لیے وفاقی کابینہ سے دو مرتبہ منظوری لینی پڑے گی۔ پہلی مرتبہ ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ ان کو برطانیہ بھجوانے کے لیے، کیونکہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کسی مجرم کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اگر وہ پکڑا بھی جائے تو اس کو برطانیہ بھجوانے میں کئی ماہ اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔
عرفان شریف کے جہلم میں آبائی گاؤں کڑی کے نمبردار چوہدری عبدالرشید کے مطابق ان کے خاندان کی مجرمانہ تاریخ ہے اور کچھ عرصہ قبل اس کا بھائی لین دین کے ایک مقدمے میں غبن کے الزام کے بعد فرار ہو گیا تھا جبکہ عرفان شریف کے والد کو اس وجہ سے چند سال اڈیالہ جیل میں رہنا پڑا تھا۔ بعد ازاں دوسرے فریق سے صلح ہونے کے بعد ان کو رہائی ملی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق جہلم پولیس کے ایک ڈی ایس پی نے بتایا کہ چھاپوں میں ناکامی کے بعد پولیس ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کر رہی ہے اور کچھ ایسی گاڑیوں کی فوٹیج تلاش کر رہی ہے جو عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور ان کے بھائی فیصل شریف کی نقل و حمل میں استعمال ہوئی ہیں۔
٭٭٭