بجلی کے بل اورعوامی ردِعمل
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
ملک میں اِس وقت جب سیاسی جماعتیں عملاًخاموش اور صورتحال کا بغور جائزہ لینے میں مصروف ہیں، عوام میں اشتعال جوبن پر ہے۔ ہر مکتبہ فکرسڑکوں پرہے مہنگائی سے تنگ شہری بجلی کے بل دیکھ کر بپھرے نظرآتے ہیں۔ عوام کاایسا شدیدردِ عمل زیادہ حیران کن نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت جاتے جاتے ایسے حالات بنا کررخصت ہوئی جس کی وجہ سے سب کا سکون و اطمینان غارت ہو گیاہے۔ شاہراہوں ،چوراہوں اور گلی محلوں میں احتجاج جاری ہے تو صورتحال اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ والدین اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں مار کر خود بھی مرنے لگے ہیں لیکن اِس بدترین صورتحال کا حکومتی حلقوں کو ادراک ہے؟ بظاہرحکومتی صفوں میں اطمنان اور آسودگی دیکھ کر جواب نفی ہی بنتاہے جسے سنگدلی اور سفاکی کے سواکوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
ممکن ہے مہنگائی پر عوام صبر کر لیتے لیکن مہنگی بجلی سے فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے سے روزگارمیں کمی آچکی ہے بے روزگاری میں اضافہ ہو نے سے ذرائع آمدن میں کمی ہوئے بے روزگاروں کی فوج اپنا غم وغصہ سڑکوں پرآکر نکالنے لگی ہے۔ لوگوں کوبل جمع نہ کرانے پر قائل کیا جانے لگا ہے۔ ابھی سیاسی جماعتیں عوامی غم و غصے میں شریک ہونے اور مظاہرین کو منظم کرنے سے گریزاں ہیں مگر حالات جتنی تیزی سے خرابی کی جانب مائل ہیںکسی وقت بھی اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے لاتعلق سیاسی جماعتیں بھی مظاہروں کاحصہ بن سکتی ہیں۔ کیونکہ عملاً حالات سول نافرمانی جیسے بننے لگے ہیں۔ عوامی غم وغصہ دیکھتے ہوئے بجلی مہنگی کرنے اور موجودہ بحران کی ذمہ دارجماعتیں بھی بری الزمہ ہونے کی کوشش میں ہیں ۔ موجودہ صورتحال کے اہم کردار سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیرعلی بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ لوگ قرضہ لے کر اور زیور بیچ کر بجلی کے بل ادا کررہے ہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف کے کہنے پر بلوں میں جو ٹیکسز لگائے گئے ہیں وہ فوری طورپر واپس لیے جائیں ، ایسے بیانات دیکر ممکن ہے وہ سمجھتے ہوں کہ خودکو معصوم اور بے گناہ ثابت کر لیں گے مگر اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ وہ بطور وفاقی وزیر پانی و بجلی کے ساتھ آئی پی پیز کے نمائندے کے طورپربھی مہنگی بجلی پیداکرنے والی کمپنیوں کے مفادات کی نگہبانی کرتے رہے ہیں جس کی وجہ نجی کمپنیوں سے ملنے والا مالی مفاد ہی ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ایسا ہی کردارراجہ پرویز اشرف کابھی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی اور ن لیگ دونوں جماعتوں کی حکومتیں بجلی کے مہنگے معاہدوں میں تخفیف نہیں کرا سکیں۔ بلکہ عوام کی جیبیں خالی کرانے کے منصوبوں میںسہولت کار کا کردار اداکرتی رہی ہیں مگر اب تو کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیںرہا بلکہ عوام پر ساری واردات آشکارہوچکی ہے۔ اسی لیے اب ایسی صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی بلکہ جلدہی عوامی غم و غصہ میں کمی لانے کے لیے حکومت کو کچھ ایسے فیصلے کرنا ہوںگے جن سے عوام کے شدید ردِ عمل میں کمی آئے اور حالات سول نافرمانی کی طرف نہ جائیں۔ ایسے فیصلے نگران حکومت کے لیے زیادہ مشکل نہیں کیونکہ موجودہ نگران حکومت کو معاشی فیصلے کرنے کا اختیارحاصل ہے لیکن ا گر حکومت عوامی صدائے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا سنگدلانہ اور سفاک رویہ برقرار رکھتی ہے تو مجھے کہنے دیجیے کہ حالات کا جلد بے قابو ہونا دور نہیں رہا۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ڈیمز اور نیوکلیئرزرائع سے بجلی پیداکرنے کے ساتھ پاور پلانٹ لگا کر فرنس آئل سے بجلی بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور نجی کمپنیوں کو پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دے کراُن سے حکومت نے بجلی خریدنے کے ایسے معاہدے کیے جن کا فی یونٹ ریٹ دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی سے تین گُنا زیادہ رکھا گیا۔ مزید ستم یہ کہ تمام معاہدے ڈالرزمیں کیے گئے جس کا جوا زیہ پیش کیا گیا کہ اول تو سرمایہ کار غیر ملکی ہیں جو بجلی بنانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے آرہے ہیں ۔دوم جس فیول سے بجلی بنائی جانی ہے وہ بھی درآمد کرناہوگا۔اِس طرح فیول درآمد کرنے اور منافع کی ادائیگی ڈالرز میں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ ایسی واردات تھی جس کی ابتدا میں تو کسی کو سمجھ ہی نہ آئی اِکادُکا مخالفانہ آوازیں جو سنائی بھی دیں ۔اُنھیں بھی حیلے بہانوں سے جلد خاموش کرادیا گیا۔ مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ن لیگ اقتدار میں آئی تو اُس نے بھی اِن نجی کمپنیوں کو چیرہ دستیوں سے نہ روکا۔ بلکہ ہرحوالے سے سرپرستی شروع کردی۔ ظاہر ہے اِس سرپرستی کے عوض یقینی طورپر کوئی انڈرہینڈ ڈیل ہی ہوسکتی ہے۔ وگرنہ کون اپنے ووٹروں کوافلاس کے طوفان کے سامنے تڑپنے اورسسکنے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ سکتا ہے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ نجی کمپنیاں سالانہ ایک ہزار ارب سے زائد منافع کما رہی ہیں۔ نیز کوئی پاؤرپلانٹ بجلی پیداکرے یا نہ کرے بلکہ اگر کوئی پلانٹ بندبھی رہے توبھی بجلی پیدا کرنے کی اُس کی استطاعت کے مطابق حکومت اُسے ادائیگی کرنے کی پابند ہے ۔ یہی پاورسیکٹر میں گردشی قرضے کی وجہ ہے کیونکہ ملک میں اکثر کارخانے بندہونے سے ہمارے پاس برآمدی سامان کی کمی ہو نے سے ملک میں ضروت کے مطابق ڈالرنہیں آرہے لیکن نجی پاور کمپنیوں کوہرصورت ادائیگی ڈالرز میں کرنا ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے لیکن کوئی بھی اِس کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں۔ سب اپنے معمولی مالی فائدے کے لیے پوری قوم کو اندھیروں کے حوالے کرگئے اور ملک کو دیوالیہ کے قریب پہنچا گئے ہیں اب بھی حالات بتدریج بہتر بنائے جا سکتے ہیں بشرطیکہ حکمران صدقِ دل سے کام کریں۔
ملک میں مہنگی بجلی کے منصوبوں سے جان چھڑانے کے بے شمار مواقع ہیں جن سے فائدہ اُٹھاکرعوامی ردِ عمل کی شدت کم کی جا سکتی ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ آئی پی پیز سے ملنے والے مالی مفادات کو چھوڑکرفیصلے کیے جائیں نگران حکومت کے پاس موقع ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا ازسرے نو جائزہ لیکرانھیںعوامی مفاد کے مطابق بنا ئے اِس حوالے سے جتنی تاخیر کی جائے گی وہ عوامی نفرت کی شدت میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے ملک مزید سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہوتاجائے گا۔ ایک سے زائدبار حکومت کی توجہ ماہرین اِس جانب مبذول کر اچکے ہیں کہ درآمد کیے جانے والے فرنس آئل سے بجلی بنانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے دیگر ذرائع ڈیمز، نیوکلئیراور ونڈ انرجی پر انحصار بڑھایا جائے لیکن ہر حکومت میں نجی کمپنیوں سے مالی مفاد لینے والے اُن کے نمائندے ایسے کسی فیصلے کی نوبت نہیں آنے دیتے ،بلکہ نجی کمپنیوں کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اب جبکہ حکومت کو بظاہر کسی دبائو کا سامنا نہیں اُسے عوامی مفاد کے لیے اقدامات میں سُستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ خوشی قسمتی سے پاکستان میں سارا سال سورج چمکتا ہے جس کی وجہ سے غیر معمولی سولر انرجی کے مواقع ہیں جن سے فائدہ نہ اُٹھانا کفران نعمت ہے۔ آٹھ سو کلو میٹر کی طویل ساحلی پٹی ونڈانرجی کے لیے بہترین ہے جس سے ضرورت کے مطابق بجلی انتہائی سستے داموں مل سکتی ہے۔ لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ درآمدی فرنس آئل اور کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے ختم کیے جائیں۔علاوہ ازیں آئندہ تعمیر ہونے والی کمرشل اور گھریلو عمارات کے نقشہ جات کی منظوری کے قواعدو ضوابط میں سولر انرجی کا اضافہ کرنے سے بھی بجلی کی کافی حد تک بچت کی جا سکتی ہے۔ ٹرانسمشن لائن لاسز ،چوری اورمفت بجلی کی سہولت ختم کرنا بھی بحران کے حل میں مددگار ہو سکتا ہے کیونکہ یہ اخراجات بھی عوام سے پورے کرنے کے لیے بلوں میں نت نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ لائن لاسز کا حل بجلی کی ترسیل کے نظام کی اپ گریڈیشن ہے مزیدٹیکس لگانا نہیں بجلی چوری روکنے اور واپڈااہلکاروں اور اعلیٰ آفیسرز کو مفت بجلی فرام کرنے کا سلسلہ روک کر بھی عوام کو ریلیف دیاجا سکتا ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی مفاد میں فیصلے کرتے وقت حکومت کسی دبائو کو خاطر میں لائے۔
٭٭٭