نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی ہمارے موجودہ مسائل کا حقیقی حل
شیئر کریں
مولانا سفیان علی فاروقی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ِ مبارکہ کے بعد چند ہی سالوں میں دنیا کا معاشرتی نقشہ بدل گیا۔ تاریخ آج بھی ورطہئ حیرت میں ہے کہ اتنا بڑا معاشرتی انقلاب چند سالوں میں کیسے ممکن ہوا؟ وہ معاشرتی انقلاب اتنا جامع و مکمل تھا، اتنا کامل و اکمل تھا، اتنا بہترین اور لازوال تھا کہ پندرہ سو سال بعد بھی اگر کائناتِ انسانی میں کسی آئیڈیل معاشرے کی مثال دی جاتی ہے تو کیا اپنے، کیا پرائے، سب کے سب نبوی معاشرے کی مثال دیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی اصلاحات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کی معاشرت کو دنیا کے لیے نمونہ بنانا تھا، سو اس لیے ان کی معاشرت کو بہتر سے بہترین بنایا، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت ہی تھی کہ جو لوگ معاشرتی بد حالی کا شکار تھے، وہی لوگ معاشرتی زندگی کے لیے کسوٹی اور پیمانہ بن گئے۔ وہی معاشرہ نبوی اصلاحات کی بدولت دنیا کا بہترین اور آئیڈیل معاشرہ کہلایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں سے ایک دوسرے کی نفرت کو نکال کر ایک دوسرے کے لیے محبت بھر دی، بلکہ اس سے بھی آگے ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا کردیا کہ اپنی ذات اور ضروریات پر دوسرے مسلمان کی ضروریات مقدم لگنے لگیں، اپنی جان سے زیادہ دوسرے مسلمان کی جان عزیز ہونے لگی اور خون کے پیاسے محبت کے خوگر بن گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معاشرت کو ایسا سنوارا کہ وہ چرواہے جنہیں تہذیب و تمدن کا سرے سے پتا ہی نہیں تھا، دنیا نے انہی کے تمدن سے اپنے معاشروں کے خطوط استوار کیے، انہی چراغوں سے روشنی لے کر اپنے عہدوں کوروشن کیا، انہی کے قدموں سے علم کے وہ سُوتے پھوٹے کہ آج تک معاشرت اور عمرانیات کے علوم ان کے در کے ریزہ چیں ہیں۔
نبوی معاشرے کے بنیادی اجزاء میں سے ایک امر بالمعروف ونہی عن المنکر تھا، نیکی کی تلقین اور برائی سے روک تھا م، نبوی معاشرے کا ہر فرد اس عمل سے چوبیس گھنٹوں میں کبھی بھی غافل نہیں ہوتا تھا، اسی وجہ سے اس معاشرے میں کرائم لیول زیرو تھا، نہ صرف کرائم لیول زیرو تھا، بلکہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی برکت سے نبوی معاشرہ جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ تھا۔ اسی طرح نبوی معاشرہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے“تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ”پر کھڑا کیا تھا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دینا اور برے کاموں میں بالکل بھی ساتھ نہیں دینا، اس سے معاشرہ اخلاقی برائیوں سے بالکل پاک ہوگیا تھا۔ اسی طرح دین پر عمل کرنے کا جذبہ تمام کاموں اور تمام جذبوں پر غالب تھا، دینی تقاضا آنے کے بعد اُن کے ذاتی تقاضے دور کہیں پیچھے رہ جاتے تھے، اسی طرح نبوی معاشرے کی ایک خاصیت یہ تھی کہ ان میں ایمانداری، خوفِ خدا، خشیتِ الٰہی، عفوو درگزر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، جس سے ا ن کی معاشرتی خوبصورتی کو چار چاند لگے اور وہ ایک مکمل متمدن معاشرہ کہلوایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی
نبوی معاشرے کی جتنی بھی خوبصورتیاں ہم اوپر پڑھ کر آئے ہیں، ان سب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تبلیغ نہیں کی، بلکہ خود عمل کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سکھلایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے عملی نمونہ تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احکاماتِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہیں زیادہ آگے اورمستعد تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی پر کوئی صاحبِ فکر و دانش انگلی نہیں اُٹھاسکتا، اتنی جامع و مکمل معاشرتی زندگی دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو عطا ہی نہیں کی گئی، حسنِ معاشرت کے تمام چشمے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے پھوٹے۔ دنیاوی سطوت و اُخروی نجات کی تمام جہتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ پا میں پنہاں ہیں۔ آج کی جاں بلب انسانیت کو بھی نبوی تعلیمات اور نبوی معاشرت کی ضرورت ہے، ہمارا معاشرہ انسانیت کے لیول سے نیچے گر چکا ہے، تعلیم میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں، صحت میں بھی بہت پیچھے ہیں، نظامِ عدل و انصاف میں پہلے سو ممالک میں ہمارا نام نہیں، گڈ گورننس نام کی چیز موجود نہیں، طاقت ور اور کمزور کے لیے قانون کی الگ الگ تشریحات کی جاتی ہیں۔ غرض معاشرتی بدحالی اور اخلاقی زبوں حالی کی ریڈ لائن عبور کرچکے ہیں، ایسے میں بہت زیادہ ضروری ہے کہ ہم نبوی معاشرت کو آئیڈیل بنائیں اور انہی خطوط پر اپنے معاشرے کی تشکیل کریں۔
٭٭٭