میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں حکومت کی سربراہی میں اسلامو فوبیا عروج پر 

بھارت میں حکومت کی سربراہی میں اسلامو فوبیا عروج پر 

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

پچھلے کچھ سال سے بھارت میں مسلم و اسلامو فوبیا میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ آئے روز مختلف علاقوں میں فسادات کرکے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، ان کے گھر مسمار کیے جارہے ہیں، کہیں مساجد کو آگ لگائی جارہی ہے اور کہیں مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔اب تک سیکڑوں بے گناہ مسلمان مرد و خواتین بچے اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ مودی حکومت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور ہندو انتہاپسندوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اقلیتوں کو ہندوستان میں سکھ کا سانس نہ لینے دیں۔ ان غنڈوں نے بھی اپنی اس جنونی ذمے داری کو خوب نبھایا اور مسلمانوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔بھارت میں مسلمانوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انسانیت سوز مظالم کے ساتھ ان کے گھروں کو گرا دیا جاتا ہے، مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور انہیں شہید کردیا جاتا ہے۔ بابری مسجد جیسی تاریخی مسجد کو فقط رام کی جائے پیدائش قرار دے کر شہید کردیا گیا جس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر وہاں کی عدالتیں بھی اس قدر اندھی اور متعصب ہیں کہ کسی ثبوت کے بغیر اسے درست قرار دے دیتی ہیں اور ان میں ملوث مجرموں کو باعزت بری کردیتی ہیں۔بھارتی حکومت اور عدالتوں کے رویوں کی وجہ سے بھارت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے نہایت غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے اقوام متحدہ جیسا فورم بھی بھارتی مظالم سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارت کے مسلمان کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ مساجد، عیدگاہوں، رہائشی و تجارتی املاک کو تباہ کرنا، جلانا، گائے لے جاتے ہوئے تاجروں کا وحشیانہ طریقے سے قتل عام اور زندہ درگور کرنے سمیت عزت مآب مسلم خواتین کا ریپ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ 8 لاکھ مسلمان بچیوں کی جبراً مشرک ہندوؤں کے ساتھ شادی کر دی گئی ہے۔ اس وقت نسل پرست بھارتی معاشرے میں مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔ درحقیقت مشرک ہندو، مسلم دشمنی میں اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ اس ہندو دہشت گردی کے بعد ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت اپنی تاریخ کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تب غزوہ بدر جیسے معرکے برپا ہوتے ہیں۔مشرک ہندوؤں کی اسلام و مسلمانوں سے دشمنی کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کو یہ دشمنی ان کے آباء و اجداد سے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن اس دشمنی نے اس وقت وحشت و بربریت کی انتہا کر دی جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اس وقت کم و بیش 6 ملین نہتے مسلمانوں کو انتہائی بیدردی سے شہید کیا گیا۔ مسلم نسل کشی کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ موقع و محل کی مناسبت سے یہ شیطانی فعل جاری و ساری ہے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ ستر سال کے دوران 50,000 کے قریب بھارتی مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ ان میں مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ پچیس ہزار شہید ہونے والے مسلمان شامل نہیں ہیں۔ مشرک ہندوؤں کی مسلم دشمنی کی فطرت کو قرآن نے آج سے چودہ صدیاں قبل ہی بغیر کسی ابہام کے کھل کر بیان کر دیا تھا۔ (یقینا آپ ایمان والوں کا سب سے سخت دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے، سورۃ المائدہ)نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چلتی ٹرینوں میں سرعام حاضر سروس فوجی اہلکار چیتن سنگھ چن چن کر 3 نہتے مسلمانوں کا قتل کر دیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا، پکڑنے والا نہیں۔ الٹا ایسے دہشت گردوں کو نسل پرست بھارتی معاشرے میں ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ دن دیہاڑے دارالحکومت نئی دہلی سے محض چند کلومیٹر دور واقع گروگرام میں شدت پسند ہندوؤں کا ہجوم ایک مسجد کو نذر آتش کر دیتا ہے۔ اس دوران 22 سالہ امام مسجد محمد سعد سمیت دو مسلمانوں کو انتہائی سفاکانہ طریقے سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ضلع نواح میں ہندو بلوائیوں نے دو مزید مساجد کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ بہت سے علاقوں میں جمعہ اجتماعات پر پابندی بھی لگا دی۔ ان اندوہناک واقعات نے ہر محب اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مسلم دشمنی میں ہندو کافر کس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مانو مانیسر نامی ہندو killer اپنے ساتھیوں سمیت نہتے و بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرتے وقت باقاعدہ ویڈیو بناتے ہوئے قہقے لگاتے ہیں اور پھر ان ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔
چند روز قبل ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی اور مسجد کو بچانے کے لیے آنے والے پیش امام کو بھی شہید کردیا گیا۔ہریانہ میں 50 سے زائد مسلمانوں کے گھر اور دکانیں گرادی گئیں اور اس کو تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔ مگر وہاں کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ہندو انتہاپسند جماعتوں کے کہنے پر یہ کارروائیاں کررہی ہے اور یہ کارروائیاں بھی صرف مسلمانوں کے خلاف ہورہی ہیں۔ اگر تجاوزات کے نام پر آپریشن کیا جارہا ہے تو مسلمانوں کے علاوہ بھی دیگر لوگوں کی عمارات گرائی جاتیں مگر صرف مسلمانوں کو ہی اس کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو انتہاپسند خاص طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلیے یہ کارروائیاں کررہے ہیں۔بھارتی مسلمان نہایت دگرگوں حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں ان کیلیے بہت سے مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں، آئے روز ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو شہید کیا جاتا ہے۔بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے لیکن وہاں ہندوؤں کی تعداد ان سے بھی کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان اقلیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ متحد ہوکر ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت بہت سے علمائے کرام جو پاکستان کے مخالف تھے، ان کا نقطہ نظر یہی تھا کہ اگر پاکستان بن گیا تو مسلمان تقسیم ہوجائیں گے، کچھ پاکستان میں رہ جائیں گے، کچھ بنگال میں اور کچھ ہندوستان میں، مگر ہندو متحد رہیں گے۔ لیکن اس وقت پاکستان بنانا بھی ضروری تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگی رہنماؤں نے پاکستان کے وجود کیلیے انتھک محنت کی۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی ایسا فارمولا نہیں لایا جاسکتا تھا کہ تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے انہیں ایک جگہ جمع کردیا جائے۔بہت بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے مسلمان پاکستان تو آگئے مگر ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو پاکستان میں لانا ممکن نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو وہ تھے جو پاکستان کے حامی تھے مگر مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کی طرف ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو پاکستان کے وجود کے مخالف تھے مگر آج ان لوگوں کو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا اور آج انہیں بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی ضرورت بھی محسوس ہورہی ہوگی۔ بلکہ انہیں ہی نہیں، ہمیں بھی اب بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ پھر سے ایک بار مسلمان محنت کریں اور جدوجہد کرکے بھارت کو مزید تقسیم کرکے ایک اور پاکستان بنائیں۔ بظاہر تو یہ ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ اب بھارت کے اندر ایسی کوئی ریاست نہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں۔ 1947 کے وقت یا اس سے قبل جن ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں تھے، انہیں ملا کر تو الگ وطن بنا لیا گیا مگر اب کوئی ایسی ریاست نہیں جس میں مسلمان اکثریت میں ہوں، لہٰذا بظاہر تو یہ ایک خواہش ہی ہے جس کی تکمیل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔ بھارت اپنے سیکولرازم کے دعوے کے باوجود سیکولر نہیں بن سکا اور وہاں ہندوتوا کا راج ہے، جو مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مزید پروان چڑھ رہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں