گھریلو ملازمین پر تشدد اور زیادتیوں کے واقعات
شیئر کریں
کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں عوامی دباؤ کے بعد نامزدملزمہ کاعبوری ضمانت کے اخراج کے بعد گرفتار تو کر لیا گیا اور جسمانی ریمانڈ نہ ملنے کے باعث اُنہیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں رضوانہ کے والدین کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ واقعہ صرف رضوانہ کے ساتھ پیش نہیں آیا ہے بلکہ ایسے نہ معلوم کتنے واقعات کتنی گھریلو ملازم بچیوں اور بچوں کے ساتھ پیش آرہے ہیں، دراصل غربت ناخواندگی کے سبب ہمارے ملک کے غربت کے مارے لوگ اس امید پر کہ متمول لوگوں کے گھروں پر ملازمت کی صورت میں انھیں کم از کم 2 وقت کا کھانا تو وقت پر مل جائے گا اپنے بچوں کو گھرپر کام کاج کے لیے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن گھریلو ملازم رکھنے والے بہت کم لوگ ان بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے ساتھ زر خرید غلاموں جیسے سلوک کی شکایات عام ہیں، جبکہ ہمارے محکمہ محنت کے افسران اور اہلکار اس جانب سے مکمل چشم پوشی اختیار کیے رکھتے ہیں بلکہ عملاً اس میں دخل اندازی کو اپنے فرض کا حصہ ہی تصور نہیں کرتے جس کی وجہ سے ملک بھر میں گھریلو امور کی انجام دہی اور خصوصاً بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کم عمر بچوں اور بچیوں کو بطور رہائشی ملازم اپنے پاس رکھنا معمول کی بات بن گئی ہے۔ یہ بچے مالکان کو فراہم کرنے والا نیٹ ورک ایک مکمل مافیا ہے۔ یہ مافیا صوبے بھر میں انتہائی پسماندہ علاقوں میں موجود غریب ترین خاندانوں کو ایڈوانس رقم دیکر بچوں کو حاصل کرتا ہے۔ ایسے میں صنفی زیادتی کے واقعات بھی پیش آنا بعید نہیں جو الگ سے مسائل کا باعث ہے۔ بچوں سے مشقت لینے پر متعلقہ محکمے کی غفلت کسی سے پوشیدہ نہیں، بچوں سے مشقت کوئی ایسا جرم نہیں جسے چھپا کر کیا جاتا ہو بلکہ یہ سب کو نظر آنے والا جرم ہے جس کا اگر نوٹس لینے کی زحمت کی جائے اور بااثر افراد کے خلاف کارروائی کی ہمت کی جائے تو بآسانی اس کی روک تھام ممکن ہے۔ والدین کی مجبوری ان کی آنکھوں پر پٹی بندھنے کا باعث ہے ورنہ کون اپنے لخت جگر کو بھیڑیوں کے حوالے کرے گا، بچوں سے مشقت کے قوانین پرعملدرآمد پر توجہ دے کر اس سلسلے میں کمی لائی جا سکتی ہے مگر جہاں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھنے والا معاملہ ہو وہاں توقع اور مطالبہ دونوں ہی عبث ہیں۔جب تک بچوں پر تشدد کے واقعات میں ملوث گرفتار افراد کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا تب تک گھریلو خادموں پر تشدد اور ان کے استحصال کی روک تھام ممکن نہیں۔