میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغان طالبان پاکستان سے متعلق رویہ تبدیل کریں

افغان طالبان پاکستان سے متعلق رویہ تبدیل کریں

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

اداریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی مسلح افواج نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں اور آزادانہ کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ عبوری افغان حکومت دوحا معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق حقیقی معنوں میں کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے ارتکاب کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی، اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اوراب پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے موثر جواب دیا جائے گا۔پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں اور آزادانہ کارروائی پر شدید تشویش ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں ۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مسلح افواج اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی جب تک دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا”۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ ”پاکستان میں حملے کر کے شہریوں کا خون بہانے والے دہشت گرد افغانستان کی سرزمین میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا کر رہا اور نہ ہی دوحا معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ 50 سے 60 لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 4 سے 5دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔مسلح افواج کے سربراہ نے دوٹوک انداز میں متنبہ کیاہے کہ یہ صورتحال مزید جاری نہیں رہ سکتی، پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا”۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کورکمانڈرز کانفرنس نے بھی بیک آواز یہ کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔ کور کمانڈرز نے ایک پڑوسی ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کو کارروائی کی آزادی، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی کو نوٹ کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کے پاس یہ جدید ترین ہتھیار پاکستان کی سلامتی متاثر کر رہے ہیں۔آرمی چیف کے اس انتباہ اور کور کمانڈرز کی بریفنگ سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف مسلسل کی جانے والی کارروائیوں اور پاکستان کی مسلح افواج اور اہم تنصیبات کے پے درپے واقعات سے اب پاک فوج کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکاہے ،اور پاک فوج کے سربراہ اور کورکمانڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پیار ومحبت کی زبان سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کیلئے طاقت کامظاہرہ کرنا ہوگا ،طالبان کی جانب سے مسلسل پاکستان کے انتباہات کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے بالاخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آرمی چیف کو بھی طالبان حکومت سے کہنا پڑا کہ اگر وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو لگام نہیں ڈالتی ان کے مراکز کا خاتمہ نہیں کرتی تو پھر پاکستان کو خود ایسا کرنا پڑے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی حالیہ بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے پاک فوج کی برداشت کی حد عبور کر لی ہے۔
القاعدہ، داعش، طالبان، ٹی ٹی پی، اس سے منسلک متعدد چھوٹے بڑے گروپوں کے بعد اب الجہاد کے نام سے دہشت گردوں نے جو کارروائیاں شروع کی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ڈانڈے بھی افغانستان میں موجود ان مراکز سے ملتے ہیں جنہیں بھارت کی طرف سے بھرپور مالی امداد و تربیت ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حملہ آور جدید ترین جنگی ہتھیاروں جن میں تاریکی میں دیکھنے والے آلات شامل ہیں مسلح ہیں۔ پاکستانی طالبان کے پاس جدید امریکی ہتھیار ہونا کوئی نئی خبر نہیں۔ ٹی ٹی پی کے سابق رہنما حکیم اللہ محسود نے ایک بار امریکی فوجیوں سے چھینی اسنائپر گن دکھائی تھی۔ مسئلہ ان مہلک ہتھیاروں کا پاکستان کے خلاف استعمال ہے۔ژوب حملے کی ذمہ داری اگرچہ ایک نئی تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی لیکن اس کے بارے میں بھی قیاس ہے کہ یہ ٹی ٹی پی کا ہی دھڑا ہے۔پاکستان کے سیکورٹی ادارے کئی ماہ سے شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے مسلسل بھاری جانی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ شمالی بلوچستان کے علاقے ژوب میں گزشتہ ہفتے ایسے ہی ایک حملے میں 9 سکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئیں۔ اس علاقے کی سرحد شمال میں افغان صوبے نمروز سے ملتی ہے۔ یہ حملہ اس سال کے شدید ترین حملوں میں سے ایک بتایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے یک آواز مبینہ طور پر افغانستان سے کیے جانے والے حملوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرناپڑاہے۔پاکستان کے بعد امریکہ نے بھی افغان طالبان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دیں۔ امریکی وزرات خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ افغان طالبان یہ ہر صورت یقینی بنائیں کہ ان کا ملک دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔دوسری جانب افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اب بھی اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد اسے خود حل کرے۔ افغان وزیر خارجہ ہمیشہ ایسی وارداتوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مگر اب پاک آرمی کے سربراہ نے واضح کردیاہے کہ اگر یہ بزدلانہ دہشت گردی کی کارروائیاں سرحد پار سے بند نہ ہوئیں تو پاک فوج اس بات کا حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی جوابی قدم اٹھائے اور ان دہشت گردی کے مراکز کو تہس نہس کر دے۔ افغان حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ کوئی خالی خولی دھمکی نہیں۔ بھارت آزاد کشمیر میں ناکام فضائی آپریشن کے بعد اس کا مزہ چکھ چکا ہے۔ تمام تر سخت دفاعی انتظامات کے باوجود پاک فوج کے شاہینوں نے بھارتی سرحد سے اندر جا کر اس کو ایسا کرارا جواب دیا کہ تادیر اس کی کسک اور تکلیف بھارت کو محسوس ہوتی رہے گی۔ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ہمسایہ ہے وہ کم از کم ایسی نوبت نہ آنے دے۔ ہماری دوستی بھائی چارے اور محبت و اخلاص کے جواب میں ہماری مہمان نوازی کی قدر کرے اور پاکستان مخالف عناصر کو اپنے اندر رہ کر پنپنے کا موقع نہ دے، ان شرپسندوں کے مراکز کو ختم کر کے ان کے شر سے پاکستان کو محفوظ رکھنے میں اپنے اسلامی برادر ملک کی مدد کرے۔ پاکستان بھی ہمیشہ سے ایسا ہی کرتا آیا ہے۔ آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے،لیکن پاکستان کے اس جذبہ خیر سگالی کے باوجود افغان طالبان مسلمان ہوتے ہوئے اور مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مودی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے، انھیں سر راہ راہ اذیتیں دے کر بہیمانہ انداز میں ہلاک کیاجارہاہے ،حیرت کی بات ہے آج تک افغان طالبان حکومت نے بھارتی مسلمانوں کی بربادی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ آئے روز وہاں مساجد شہید ہو رہی ہیں، گائے کے ذبح کے نام پر مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی املاک نذر آتش ہوتی ہیں۔ کیا مجال
ہے جو داعش، القاعدہ، طالبان یا دوسری مذہبی جہادی تنظیموں نے اس بارے بھارت کو دھمکی دی ہو کہ خبردار ایسا نہ کرنا، ہم آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں تو ایسی کوئی صورتحال نہیں۔ اس کے باوجود صرف پاکستان کے خلاف بغض کیوں رکھا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کو اپنے اس رویہ پر خود ہی غور کرنا چاہئے اور کوئی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے جس سے خود انھیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں