میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی کی قیمت میں کپیسٹی چارجز کی شمولیت 

بجلی کی قیمت میں کپیسٹی چارجز کی شمولیت 

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۹ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے بنیادی نرخ میں تقریباً5 روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا ہے۔ بنیادی ٹیرف میں 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ اضافے کے بعد یہ 24 روپے 82 پیسے سے بڑھ کر 29 روپے 78 پیسے ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس دفعہ نیپرا کی جانب سے کپیسٹی چارجز شامل کرکے بجلی مہنگی کی گئی ہے، جس سے صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ پڑے گا۔بجلی مہنگی ہونے سے متعلق نیپرا کی دستاویزات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق بجلی کی اصل اوسط پیداواری قیمت 6روپے 73 پیسے فی یونٹ ہے جب کہ نیپرا نے بجلی کی پیداواری قیمت میں 16 روپے 22 پیسے فی یونٹ کپیسٹی چارجز شامل کردیے ہیں، جس سے بجلی کی قیمت 6 روپے سے 22 روپے 95 پیسے فی ہونٹ ہوگئی۔دستاویزات کے مطابق نیپرا نے رواں مالی سال کے لیے بجلی کا پیداوری اوسط یونٹ ٹیرف مقرر کر دیا۔ رواں مالی سال میں 124 ارب 86 کروڑ یونٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ بجلی کی خالص پیداواری لاگت 801 ارب 25 کروڑ آنے کا امکان ہے جب کہ پیداواری لاگت میں 2ہزار 25 ارب روپے کپیسٹی چارجز شامل کیے گئے ہیں۔نیپرا دستاویزات کے مطابق درآمدی کوئلے سے بجلی کی اصل پیداوری لاگت 16 روپے 71 پیسے فی یونٹ ہے اور 23 روپے کپیسٹی چارجز کے شامل کرکے درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداوری لاگت 40 روپے34 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔اسی طرح کپیسٹی چارجز کے ساتھ فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری لاگت 48 روپے 56 پیسے فی یونٹ اور ایل این جی سے بجلی کی پیداواری قیمت 51 روپے 42 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔اتحادی حکومت کی جانب سے غریبوں کے ساتھ یہ ظلم کی انتہا ہے، غریب عوام پہلے ہی بجلی کے بھاری بل ادا کر کرکے ادھ موئے ہو چکے ہیں مگر اتحادی حکومت کی طرف سے ان پر ذرا بھی رحم نہیں کیا جارہا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ اس حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جو عوام کو مہنگائی سے نجات دلا کر انھیں ریلیف دینے کا عزم لے کر اقتدار میں آئی تھی مگر اس نے غریب کے منہ سے نوالہ بھی عملاً چھیننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ملنے والی خطیر رقم کے باوجود اگر مہنگائی کاخاتمہ نہیں ہو پا رہا تو یہ اتحادی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومتی دعوے ہمیشہ یہی رہے ہیں کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، کیا بجلی میں ہونے والا یہ اضافہ عوام پر بدترین بوجھ نہیں؟ وہ پہلے ہی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، وہ بھی انھیں پوری نہیں دی جاتی۔ اس اضافے سے ان کی کمر عملاً ٹوٹ جائے گی اور بہت سے لوگ اس صورتحال میں کوئی غیرقانونی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ حکومت کو خود ہی اندازہ لگانا چاہیے کہ اس بدترین مہنگائی میں غریب آدمی بجلی اور گیس کے بھاری کس طرح ادا کر پائے گا اور کس طرح وہ اپنے گھر کا نظام چلائے گا۔ حکومت کو اپنے عوام کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ان عوامی مسائل کو سامنے کیوں نہیں رکھا گیا۔ افسوس ہے کہ حکومت قسط ملنے پر پھولے نہیں سما رہی جبکہ عوام کا روزانہ کی بنیاد پر کچومر نکل رہا ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے، موجودہ بڑھتی مہنگائی کے تناظر میں حکومت انتخابی مہم کے دوران عوام کا کس طرح سامنا کر سکتی ہے۔ مہنگائی سے زچ ہوئے عوام انتخابات میں اتحادی حکومت کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں جس کے لیے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو تیار رہنا چاہیے۔ اس وقت جبکہ حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتیں قومی اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے پر نگران سیٹ اپ اور نئے انتخابات کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے باہم مشاورت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے اور دوسری اقتصادی مالیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام پر جس بے مہابا انداز میں مہنگائی مسلط کی جا چکی ہے، اس کے ہوتے ہوئے عوام ان جماعتوں کیلئے اپنے ووٹ کے ذریعے کلمہ خیر ادا کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو پیٹرولیم نرخوں میں 7سے 9 روپے فی لٹر کمی کا اعلان کر کے اپنے تئیں بڑا تیر مار دیا ہے مگر آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت رواں مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ کر کے حکومت پہلے ہی پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کا راستہ نکال چکی ہے۔ گزشتہ پندھرواڑے پرپیٹرولیم نرخ برقرار رکھے گئے جبکہ لیوی کی شرح میں اضافے سے نرخ عملاً بڑھ گئے تھے۔ اب لیوی کی شرح میں مزید اضافہ تو نہیں کیا گیا اور پیٹرولیم نرخوں میں بھی معقول کمی کر دی گئی ہے مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں جس شرح کے ساتھ اضافہ کر کے مہنگائی کے نئے جھکڑ چلانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے اس سے عوام کو  پیٹرولیم کے نرخوں میں کمی کی صورت میں تھوڑا بہت ریلیف ملنے کے ثمرات بھی غارت ہو جائیں گے۔ اصولی طور پر تو وزیر خزانہ کو پیٹرولیم کے نرخوں میں کمی کا کریڈٹ لیتے ہوئے عالمی مارکیٹ میں اس وقت موجود پیٹرولیم کے نرخوں سے بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں خام تیل کے نرخ 75.42 ڈالر فی بیرل ہیں جو گزشتہ 2 ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اس تناسب حکومت کیلئے عوام کو مزید کم نرخوں پر  پیٹرولیم  اور ڈیزل فراہم کرنا کوئی خسارے کا سودا نہیں جبکہ روس سے درآمدی پیٹرولیم کی کھیپ بھی پاکستان آ چکی ہے جس کے حوالے سے حکومت عوام کو پیٹرولیم کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کا لالی پاپ دیتی رہی ہے اور اس کے برعکس آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ پیکیج کے ساتھ بندھی اس کی ناروا شرائط کی بنیاد پر 2023-24 کے مالی سال کے بجٹ میں جس بے مہابا انداز میں عوام پر براہ راست اور بالواسطہ نئے ٹیکس مسلط کیے گئے، مروجہ ٹیکسوں کی شرح اور ڈیوٹیوں میں اضافہ کیا گیا اور ٹیکس کی وصولی کا ہدف 9 ہزار200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 425، ارب روپے کیا گیا، یہ بوجھ بھی عوام بشمول تنخواہ دار طبقے کو ہی برداشت کرنا ہے جن کی قوتِ خرید مہنگائی کے عفریت کے آگے پہلے ہی دم توڑ چکی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں نیپرا نے بجلی کے بنیادی نرخ میں تقریباً 5 روپے فی یونٹ اضافے کی سمری حکومت کو بھجوائی تھی۔ اس طرح عوام کو اب بجلی عملاً 50 روپے فی یونٹ دستیاب ہو گی اور100یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارف کو بھی ساڑھے 18 سو روپے کا بجلی کا بل ادا کرنا پڑے گا۔ اس طرح چھوٹے درجے کے جن وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں 35,30 فیصد اضافہ ہوا ہے وہ بجلی کے نئے نرخوں کی ہی نذر ہو جائے گا، جبکہ گیس کے نرخ پہلے ہی50 فیصد بڑھانے کے بعد اب حکومت نے مزید اضافے پر بھی غور و خوض شروع کر دیا ہے۔ وزارت توانائی کے ذرائع کے مطابق اوگرا کو بتایا گیا ہے کہ گیس کی قیمتوں پر ورکنگ جاری ہے اور اضافہ ہر صورت ہو گا کیونکہ اس حوالے سے حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تحریری کمٹمنٹ کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق300 مکعب میٹر اور اس سے اوپر گیس استعمال کرنے والے صارفین کیلئے گیس پہلے ہی مہنگی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آخری 3 سلیبز کو نہ چھیڑا جائے مگر گیس کے نرخ آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع بہرصورت مزید بڑھیں گے۔ جب پیٹرولیم کی مصنوعات، بجلی، گیس اور ادویات کے نرخ بڑھتے ہیں تو ہمارے معاشرے کے منافع خور طبقے کیلئے جو پہلے ہی عوام کو ذبح کرنے کے لئے چُھریاں کانٹے تیز کئے بیٹھے ہوتے ہیں، عوام کو مصنوعی مہنگائی کی مار مارنے کا مزید موقع مل جاتا ہے۔ عوام اس وقت عملاً مہنگائی کے آگے بے سدھ ہو چکے ہیں جن کیلئے روزمرہ استعمال کی اشیایہاں تک کے بہت سوں کیلئے آٹا خریدنا بھی کاردارد ہو چکا ہے جبکہ بچوں کی تعلیم اور ضروریات زندگی کے دیگر اخراجات وہ اپنی آمدنی اور تنخواہوں میں پورے کرنے کی قطعاً پوزیشن میں نہیں رہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ حکومت کبھی پیٹرولیم کے نرخوں میں کمی کا کریڈٹ لیتی ہے تو اس کے ثمرات بھی عوام تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ پیٹرولیم کے نرخوں میں اضافے کو جواز بنا کر ٹرانسپورٹ کے بڑھائے گئے کرائے بھی جوں کے توں برقرار رہتے ہیں اور اسی جواز کے تحت بڑھنے والے دیگر اشیا کے نرخوں میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں لائی جاتی اس طرح آج وسائل سے محروم عوام مہنگائی کے ہاتھوں عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں اور خطِ غربت کی لکیر کے نیچے کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حالات کسی ملک کی مستحکم معیشت کی ہرگز عکاسی نہیں کرتے۔ایک طرف اتحادی حکومت عوام کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کے دعوے کر رہی ہے اور دوسری جانب بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات جیسی بنیادی اشیاء کے نرخ آئے روز بڑھا کر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ مہنگی بجلی عوام کے لیے پہلے ہی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ ہر دوسرے روز اس کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کو عملاً زچ کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ نرخوں میں نیا اضافہ اس کا مزید کچومر نکال دے گا۔ عام آدمی اپنی معمولی آمدنی سے اپنے گھر کے اخراجات مشکل سے پورے کر رہا ہے اور اسی آمدنی سے وہ بجلی، گیس اورپیٹرولیم کے اخراجات بھی پورے کرنے پر مجبور ہے جبکہ حکمران طبقہ جو لاکھوں میں تنخواہیں وصول کر رہا ہے، اسے بجلی، گیس اور پیٹرول سرکار کی طرف سے مفت میسر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اشرافیہ کو یہ اشیا اپنی جیب سے خریدنے کا پابند کیا جائے اور عام آدمی کو اگر مفت نہیں تو کم از کم ارزاں نرخوں پر بجلی گیس اورپیٹرول فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ عام آدمی پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ دبا ہوا ہے، مزید دبانا اسے زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ بہتر ہے کہ یہ بوجھ اشرافیہ کی طرف منتقل کیا جائے اور عام آدمی کو حقیقی ریلیف دینے کا سوچا جائے۔ اگر عوام ایڑیاں رگڑ کر مر رہے ہوں اور معدودے چند حکمران اشرافیہ طبقے کے وارے نیارے ہوں جن پر کسی بھی حد تک بڑھنے والی مہنگائی اثرپزیر نہ ہو رہی ہو تو محروم طبقہ بھلا کیونکر اپنے حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کیلئے رطب اللسان ہو سکتے ہیں۔ حکومتی اتحادی قیادتیں اگر مقررہ آئینی میعاد کے اندر انتخابات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں نگران سیٹ اپ کی طرف جانے سے پہلے پہلے عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل پر بہرصورت مطمئن کرنا ہو گا، اس کے بغیر وہ عوام کی جانب سے اپنے لئے پزیرائی کی ہرگز توقع نہ رکھیں۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں