میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم اور اقتصادی بحران

لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم اور اقتصادی بحران

جرات ڈیسک
پیر, ۱۰ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پاک فوج کے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کر دیا، افتتاحی تقریب میں آرمی چیف عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کے تحت جدید کاشتکاری کیلئے 44 لاکھ ایکڑ اراضی کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی کھربوں روپے کے زرعی منصوبے پر کام شروع ہوگیا ہے، منصوبے سے 2 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمیاں ہوں گی، منصوبے کے تحت 2ہزار بڑے فام بنائے جائیں گے،جس میں 3 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی اس منصوبے میں سعودی عرب فوری 50کروڑ ڈالر لگائے گا، منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔ 40لاکھ کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ہے، کسانوں کو موسمی تبدیلیوں، فصلوں کی سیٹیلائٹ نگرانی، پانی،کھاد اور اسپرے کے استعمال کے بارے میں بروقت معلومات دی جائیں گی۔اس کے علاوہ کسانوں کو منڈیوں تک براہ راست رسائی ملے گی۔ پاک فوج نے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم تیار کر لیا ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے متعدد منصوبوں پر کام کا آغاز ہو گیا ہے۔پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل اسٹرٹیجک پراجیکٹس کی زیر نگرانی ایل آئی ایم ایس سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت ملک بھر میں زراعت کے شعبے میں 3 ارب ڈالرز تک غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی جبکہ مقامی سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہو گی۔ منصوبے کیلئے پنجاب میں 8 لاکھ 24 ہزار 728 ایکڑ اراضی کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے، جس پر جدید کاشتکاری کی جائے گی۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کو بنجر زمین آباد کرنے کیلئے شرائط پر لیز پر دی جائے گی جس میں 3سال کا گریس پیریڈ دیا جائے گا، یہ سرمایہ کاری اسپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے ذریعے لائی جائے گی۔جدید زراعت کیلئے ملک بھر میں جس 44 لاکھ ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں 13 لاکھ ایکڑ پنجاب، 13 لاکھ ایکڑ سندھ، 11 لاکھ ایکڑ خیبر پختونخواہ جبکہ 7 لاکھ ایکڑ زمین بلوچستان میں موجود ہے۔ منصوبے کے تحت 95 فیصد چھوٹے کسانوں کو ٹارگٹ کرکے فائدہ پہنچایا جائے گا جس کے کم رقبے میں زیادہ پیداوار کیلئے اسے سہولتیں اور معلومات فراہم کی جائیں گی، اب تک ملک بھر کے 40 لاکھ کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا چکا ہے جس میں ان کے رابطہ نمبرز بھی شامل ہیں۔ابتدائی طور پر پنجاب کے محکمہ زراعت کے 3700 ملازمین آن بورڈ آچکے ہیں جبکہ دیگر صوبوں کے محکمہ زراعت کے ملازمین کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا، اس منصوبے کے تحت زمین، فصلوں، موسم، پانی کے ذخائر، کیڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت تلے کام کیا جائے گا۔اس حوالے سے مختلف شعبوں کے ماہرین جن میں 4 ممالک کے کنسلٹنٹس بھی شامل ہیں، ان کے تعاون، جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی نظام کے مناسب استعمال سے ایسی ترقی لائی جائی جائے گی جس سے نہ صرف خوراک کی کمی پوری ہو گی بلکہ ملک میں خوراک کے بڑے ذخائر رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان جو کہ سالانہ 10 ارب ڈالرز کی زرعی درآمدات کرتا ہے، ان درآمدات کے متبادل کے طور پر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑی سپورٹ ملے گی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں زرعی شعبے کو کسی بھی حکومت نے درخور اعتنا نہیں سمجھا،پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ اصلاحات کا بیڑا اٹھایا تھا اور چھوٹے کسانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے بعض اسکیمیں جاری کی تھیں لیکن ہماری بیوروکریسی یعنی اعلیٰ افسران نے جاگیرداروں کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعے ان اصلاحات کو اس طرح ناکام بنایا کہ کسانوں کے نام پر دئے جانے والے قرضے بھی بڑے زمیندار وصول کرکے انھیں کھاد اور بیج کی خریداری،زمین کی آبیاری اور اسے قابل کاشت بنانے کے بجائے دیگر منصوبوں لگاتے رہے جس کی وجہ پاکستان کی سونا اگلتی ہوئی زمینیں بنجر ہوتی چلی گئیں دوسری طرف حکومت کی جانب سے اجتماعی کاشتکاری کی کوئی اسکیم روشناس نہ کرائے جانے کی وجہ سے زرعی اراضی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹتی چلی جس سے کاشتکاری کے مصارف مین اضافہ اور پیداوار میں کمی ہوتی چلی گئی،اور ہماری فی ایکڑ پیداوار ایک ہی جیسی زمین اور ایک ہی جیسی آب وہوا کے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں ایک تہائی ہوکر رہ گئی،جس کے نتیجے میں آج پاکستان میں فوڈ سیکورٹی کی یہ صورتحال ہے کہ گندم کی مانگ 30.8 ملین ٹن سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پیداوار 26.4 ملین ٹن سے بھی کم ہے۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ اور بحران کا شکار ہے، اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں آنے والے مہینوں میں اگر ملک میں معاشی اور سیاسی بحران شدت اختیار کرتا ہے توشدید غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا امکان ہے، جس سے 2022 کے سیلاب کے نتائج مزید بڑھ جائیں گے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں غذائی عدم تحفظ کی جن اہم وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سب سے اہم وجہ اقتصادی بحران ہے۔ بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں، سکڑتے زرمبادلہ کے ذخائر، کمزور ہوتی کرنسی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث پاکستان ایک طویل مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ان سب کے باعث ملک کے لیے خوراک اور بجلی کی اہم سپلائیز درآمد کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ جس سے کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔ اقتصادی بحران سے گھرانوں کی خوراک اور دیگر ضروریات کی خریداری کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے،اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بڑے فارمز کی تشکیل کے ساتھ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے دعووں کے ساتھ شروع کئے جانے والے اس منصوبے کو درست سمت میں پہلا قدم قرار دیاجاسکتاہے،اس منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے عام چھوٹے کسانوں کو بھی کاشتکاری کے جدید طریقوں کی مفت تربیت دی جائے،خاص طور پر اس پر ملک کو درپیش پانی کی کمی کے پیش نظر کاشتکاروں کی جدید ڈرپ اریگیشن کا طریقہ کار سمجھانے کی ضرورت ہے تاکہ کم از کم پانی میں زیادہ سے زیادہ زمینوں کو زیر کاشت لایاجاسکے اور پانی کی قلت کی وجہ سے زرعی اراضی کا معمولی سا حصہ بھی بیکار پڑا نہ رہے۔
سیاسی عدم استحکام نے ملک کے شمال مغرب میں سلامتی کی صورتحال کو بھی متاثر کیا ہے، جہاں عسکریت پسند گروپ امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ملک قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی، زلزلے، اور ٹڈی دل کے حملے کا بھی شکار ہے، جس کے زرعی صنعت، خوراک کی پیداوار، اور لاکھوں لوگوں کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملک میں غذائی عدم تحفظ کے اثرات تشویشناک ہیں، کیونکہ یہ لاکھوں لوگوں خصوصاً بچوں، خواتین اور کمزور طبقات کی صحت، غذائیت اور بہبود کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 82 فیصد پاکستانی بچے اچھی خوراک سے محروم ہیں، جبکہ یہ ملک خطے میں غذائی قلت کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 43 فیصد پاکستانیوں کو مناسب خوراک میسر نہیں ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت غذائیت سے بھرپور کھانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ شدید غذائی عدم تحفظ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی چیلنج ہے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ملک میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت، انسانی ہمدردی کی تنظیموں، ترقیاتی شراکت داروں، سول سوسائٹی اور کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے مربوط اور ہمہ گیر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں