مختصر بغاوت اور خدشات
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ 23 جون کو روس میں ہونے والی بغاوت نے دنیاکو چونکادیا ۔حالانکہ دارالحکومت سے باہر 24گھنٹوں تک رہنے والی اِس کشیدگی کو بغاوت کے ذمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔مگر یورپی حکومتیں بہت خوش دکھائی دیں اوریہ کہا جانے لگا کہ روس جیسی بڑی جوہری طاقت میں عدمِ استحکام پر تشویش ہے۔ نیز ایسے واقعات پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے لیکن چند گھنٹوں میں ہی امن مکمل طورپر بحال ہونے سے اب گم صم اور شاک کی حالت میں ہیں۔ انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ہو کیا گیا ہے۔ چینی قیادت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور کشیدگی کو روس کا اندرونی معاملہ کہہ کر بات ختم کردی۔ وائٹ ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر جوبائیڈن کہہ بیٹھے کہ روس عراق میں جنگ ہار رہا ہے۔ صحافیوں کے توجہ دلانے پر کہا پوٹن یوکرین اور اپنے گھر میں جنگ ہار رہا ہے مگر اِس ایک واقعہ سے یہ تصور کر لینا کہ پوٹن اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کر لیں گے درست نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ روس کوئی عام ملک نے بلکہ روایتی کے ساتھ جوہری ہتھیار رکھنے والی ایسی بڑی طاقت ہے جس کا اقتدار کسی مُہم جو کے ہاتھ آنے سے پوری دنیا کاامن اوروس کی سلامتی بھی متاثرہو سکتی ہے مگر ایساصرف سوچا جا سکتا ہے عملی طور پر ایسا ہونابظاہرممکن نہیں ۔
روس میں بغاوت کا باعث اُس کا اپناشہری Yevgeny Prigozhin بناہے جس نے ویگنرکے نام سے ایسی نجی ملیشیا تشکیل دے رکھی ہے جس کے اہلکاروں کی تعدادپچاس ہزار کے قریب ہے۔ ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس یہ اہلکار اپنے ملک کے مفاد کی خاطر بیرونِ ملک فوجی مُہمات میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ آجکل پوٹن نے روس کے عالمی کردار میں وسعت لانے کے لیے دوست حکمرانوںکی مدد کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اِس میں ویگنر نامی نجی ملیشیا شریکِ کارہے۔ یہ لیبیا،شام ،مالی،وینزویلا سے لیکر سوڈان تک میں متحرک اور روسی مفاد کے تحفظ میں پیش پیش ہے۔ قازقستان اوربیلاروس حکمرانوں کے خلاف مظاہرے کچلنے کاکام بھی لیا گیا۔ نجی ملیشیا کے سربراہ نے بیرونِ ملک کارروائیوں کے دوران کان کنی کے کاروبار میں سرمایہ کاری سے بھاری منافع کمایا۔ کئی ایک علاقوں سے معدنیات نکالنے والی کمپنیوں سے بھتہ وصولی بھی کی۔ اب وہ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ مختصر سی بغاوت میںنہ صرف ایک جہاز اورچھ ہیلی کاپٹرمارگرائے بلکہ پندرہ کے قریب تربیت یافتہ روسی فوجی بھی ہلاک کرڈالے اورایک ملین آبادی پر مشتمل روستوان جیسے اہم شہر پر قبضہ کرلیا۔یہ ایسا دھچکا تھا جس سے روس کے متعلق خدشات نے جنم لیا۔ بغاوت کچلنے کے لیے روس کو ماسکو کی سڑکوں پر ٹینک ،بکتر بند گاڑیاں اور توپیں لانا پڑیں جنھیں استعمال کرنے کی نوبت تو نہ آئی لیکن ناکام بغاوت کئی طرح کے سوال چھوڑ گئی ہے۔ یوکرین جنگ کی پالیسی کے حوالے سے روسی جنرل سرگئی شوئیگو سے باغی ملیشیا کے سربراہ کا اختلاف ایک حقیقت ہے۔ جنرل کیونکہ نجی ملیشیا کو فوج میں ضم کرنے کے آرزومندہیں جو ویگنر سربراہ کو پسندنہیں اسی غصے میںماسکو کی طرف قدم اُٹھائے گئے ۔بیلا روس کے صدر لوکاشینکو کی مداخلت سے معاہدہ طے پانے کے بعدباغیوں پر درج مقدمات ختم ہوگئے ہیں اوراب کرائے کے فوجی اپنے بیس کیمپ واپس جا چکے ہیں لیکن اِس بغاوت پر خوشی منانے والوں پرتعجب ہے۔ ویگنر بھی امریکی بلیک واٹر یا کنٹریکٹر کی طرح کے لڑاکا ہیں، جہاں حکومتیں براہ راست کارروائی نہ کرناچاہتی ہوں تو ایسے مہروں سے کام لیا جاتا ہے ۔
yegeny prigozhinایک سیدھا سادہ کاروباری نہیں بلکہ نہایت عیار اور موقع پرست شخص ہے جس نے کیٹرنگ کمپنی بناکرکمال ہوشیاری سے صدراتی محل تک رسائی حاصل کی اور آمدورفت سے صدرکاقریبی ہونے کاتاثر بنایا۔ کریملن میںپوٹن سے براہ راست راہ و رسم کے بعد ہی2014میں نجی ملیشیا تشکیل دی گئی۔ اسی لیے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کام صدرکو اعتماد میں لیکر کیا گیاہوگا ۔ممکن ہے صدرکویقین دلایاگیاہوکہ نجی طور پر بنایا گیایہ گروپ نہ صرف روسی فوج کی معاونت کرے گا بلکہ کسی بھی اندرونی شورش کی صورت میں صدر پوٹن کامعاون اور ہراول دستہ بنے گا۔یہی گروپ نہ صرف اندرونی شورش کا باعث بنا بلکہ پوٹن کے وقار اورمضبوطی پربھی سوال اُٹھا گیا ہے۔ اب جبکہ نجی سیکورٹی گروپ کو عام معافی دے کر اِس کے سربراہ کو بیلا روس منتقل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن کئی پہلوابھی تک وضاحت طلب ہیں ۔برطانیہ رواں برس جنوری میں اِ س حد تک تصدیق کرسکا کہ پچاس ہزارلڑاکااہلکاروں کے ساتھ یوکرین کی لڑائی میں ویگنرپوری طرح شامل ہے۔ اِس کے باوجودا بھی تک بہت کچھ ایسا ہے جو دنیا سے پوشیدہ ہے۔ ویگنر گروپ کی محدود اور ناکام بغاوت سے پوٹن کی گرفت کو سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔کیونکہ صدرسے قریبی تعلق کے باوجود ویگنرسربراہ کو روس میں بغاوت کے لیے تیارکر لیا گیا۔ اِس تیاری میں غیر ملکی ہاتھ خارج ازمکان قرارنہیں دیا جاسکتا۔ امریکی ذرائع ابلاغ بھی ایسی خبروں کی تائید کرتے ہیں کہ بغاوت کے بارے میں امریکی اِداروں کو قبل از وقت معلوم تھا۔امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز کے اِس حوالے سے خفیہ دورہ یوکرین کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ اِس لیے روسی صدرکواپنی پالیسیوں کا نئے سرے سے جائزہ لیکرکمزوریاں دورکرنا ہونگیں ۔
ویگنر گروپ کے سربراہ نے بغاوت سے قبل روسی فوج میں پھوٹ ڈالنے اور اپنے حامی پیداکرنے کی کوشش کی مگر اُن کا یہ حربہ اُنھیں ناکامی سے تو نہیں بچا سکا ۔البتہ کئی اعلیٰ فوجی افسران حراست میں لے لیے گئے ہیں۔ ماسکو ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کے نائب سربراہ جنرل سرگئی سرودکین کوگرفتار کر لیا گیا ہے جن کے ویگنر گروپ سے قریبی تعلقات تھے۔ فوج کے مزیداعلیٰ عہدیدار وں کی بھی گرفتاری کا امکان ہے۔ باغی گروپ کے سربراہ کچھ روسی کمانڈروں کی تعریف کرنے کے ساتھ چیف آف جنرل اسٹاف ویلری گراسموف سمیت وزیردفاع سرگئی شوئیگو پر نااہلی ،سُستی اور بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ وہ باخموت شہر کی فتح میں دیراور نقصان کا ذمہ دار اسلحے کی بروقت سپلائی نہ ہونا قرار دیتے ہیں ۔ وہ ایک ہزار کے قریب ویگنر اہلکاروں کی ہلاکت کا زمہ دارفوجی قیادت کوقراردیتے ہیں۔ مگر فہمیدہ حلقے اِن الزامات کو بلاجواز کہہ کر بغاوت کے لیے فضا سازگار بنانے کی مُہم کا حصہ تصورکرتے ہیں ۔
ویگنر سربراہ کی امریکہ سے راہ و رسم راز نہیں۔ 2016 میں جاری صدارتی انتخاب کے دوران وہ سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے حق میں مُہم چلاتے رہے۔ خیال رہے کہ اسی دوران یاٹرمپ کے صدربننے کے بعد وہ امریکی ایجنسیوں سے روابط میں آئے۔ اسی بناپر بغاوت کے پس پردہ امریکی سازش کی باتیں ہورہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بغاوت کے بارے میں وسط جون سے ہی امریکی ایجنسیاں آگاہ تھیں۔ اٹلی کے وزیرِ خارجہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بغاوت سے سوویت یونین کی بحالی کا افسانہ دم توڑ گیا ہے۔ مگرخیال رہے پوٹن اتنی جلدی شکست تسلیم کرنے والے نہیں۔ وہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں ۔شام، قازقستان اور بیلا روس میں برپا ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے دوست حکومتوں کی مدد کو پہنچنا اب بیلا روس کے صدرالیگزینڈرلوکاشینکوکا باغی ویگنر گروپ کے سربراہ کو بات چیت سے ہتھیار ڈالنے پر رضا مندکرناثابت کرتا ہے کہ خطے میں پوٹن تنہا نہیںاور امریکی ،اسرائیلی اور برطانوی ایجنسیوں کا ایسا خیال کرناغلط ہے۔ عمر رسیدہ پوٹن کہیں بھی کسی ڈرامائی کام سے مخالفوں کو چونکا سکتے ہیں۔ اب بھی یوکرین جنگ یورپ کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔ مغر ب اور امریکہ سے بے دریغ اسلحہ ملنے کے باوجودروس کے زیرِ قبضہ اپنے علاقے یوکرینی افواج واپس نہیں لے سکیں۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ جتناتصورکیا جارہا ہے روس کی پسپائی اتنی آسان نہیں ۔نیز اُس کی وحدت کے متعلق خدشات مکمل طورپربے بنیادہیں۔ پوٹن کے پاس اب بھی اتنی طاقت ہے کہ کسی وقت بھی دشمن طاقتوں کی سخت خبر لے سکتے ہیں ۔
٭٭٭