نواز شریف کی سندھ یاترا
شیئر کریں
میاںمحمد نواز شریف کو ایوان اقتدار میں براجمان ہوئے 4 سال کا عرصہ ہونے کو آیا اس عرصہ میں عوام کو کیا سہولت ملی اور ترقیاتی منصوبوں سے کس کے بنک کھاتوں میں کیا بڑھوتری آئی یہ ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں ہے کہ پانامالیکس نے سارا معاملہ کھول کر رکھ دیا ہے۔ اور معاملہ عدالت عظمیٰ میں سماعت کے مرحلے سے گزر کر اعلان انصاف کا منتظر ہے سیدنا علیٰ المرتضیٰ کا فرمان ہے کہ ’کفر کی حکومت چل سکتی ہے ظلم کی نہیں‘ اور انگریز مفکر کہتا ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔‘
پانامالیکس کا عوام کو فائدہ ہوا ہے پیٹرول اور اس سے جڑی مصنوعات کی قیمتوں میں طویل عرصہ سے استحکام ہے ورنہ عالمی منڈی میں صورتحال کچھ بھی ہو پاکستان میں ہر ماہ پیٹرول اور اس سے جڑی مصنوعات کی قیمتوں میں تیزی سے تیزی دیکھنے میں آتی تھی اگر کبھی کمی ہوتی تھی تو بقدر اشک بلبل جس کے ساتھ ہی عوام کو احساس دلایا جاتا تھا کہ حکومت کے اس احسان عظیم کے نتیجہ میں قومی خزانہ پر کیا مہلک اثرات مرتب ہونگے۔
پاناما لیکس کامعاملہ جب تک زیرسماعت رہا فریقین کے دھواں دار بیانات کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن جب سے فیصلہ محفوظ ہوا ہے برسراقتدار جماعت کی حکمت عملی میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے کہ فیصلہ کچھ بھی ہو وسط مدتی انتخابات کرانے ہیں ۔کلین چٹ ملتی ہے تو ایک سال کی مدت کو قربان کر کے اور اس عرصہ میں دورن ِخانہ نہیں اعلانیہ جانشین تیار کر کے مزید پانچ سال کا اقتدار حاصل کر لیاجائے جبکہ اس وقت تک پیپلز پارٹی کے سوا کسی بھی جماعت نے انتخابی منصوبہ بندی شروع نہیں کی ہے۔ سابق صدر نے پنجاب میں مورچہ اور نرم گرم بیانات کے ذریعہ انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے لیکن دیگر جماعتیں صفر ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی ایسی کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔
میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ساڑھے تین سال کے دوران سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا تھا اگر کبھی آنا بھی ہو تو کراچی کا اسٹیٹ گیسٹ ہاو¿س ہی منزل رہا لیکن پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد کی صورتحال میں میاں صاحب کی نظر کرم سندھ کے دیگر علاقوں پر بھی پڑنے لگی ہے ۔گزشتہ دنوں ٹھٹھہ کا دورہ کیا اور شیزاری برادران کے مہمان بنے، جہاں بلٹ پروف کٹہرے میں کھڑے ہو کر عوام کو سہانے خواب دکھائے۔ سندھ کو اپنے خوابوں کی زمین قرار دیا اور اربوں کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ اب 27 مارچ کو میاں نواز شریف کی حیدرآباد آمد متوقع ہے کہ پہلے انہوں نے 25 مارچ کا وقت دیا تھا پھر یہ 27مارچ ہو گیا۔ لیکن حیدرآباد میں تاحال کوئی عوامی سرگرمی ،کوئی اعلان نہیں ہے۔ مگسی ہاو¿س آمد ہے جہاں ایک جانب مسلم لیگ تو دوسری جانب پی پی کا جھنڈا لہرا رہا ہے راحیلہ مگسی اگر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اسلام آباد سے سینیٹر ہیں لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اب چمبٹر کی ووٹر لسٹ میںانکا نام ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو یہ نام کب اسلام آباد منتقل ہوا۔ راحیلہ مگسی مشرف دور میں ضلع ٹنڈو الہیار کی ناظمہ رہ چکی ہیں اور اب اسلام آباد سے سینیٹر ہیں۔ مگسی ہاو¿س اللہ بخش مگسی کی جائیداد ہے تو قانونی طور پر ان کی اولاد ہی اس کی وارث ہے اور شرعی طور پر وراثت میں دختر کا حصہ فرزند کے نصف کے برابر ہوتا ہے۔ یوں عرفان گل مگسی آئندہ انتخابات میں ضلع ٹنڈوالہیار کی تحصیل چمبٹر کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے متوقع امیدوار ہیں اس وقت دیکھنا ہو گا کہ راحیلہ بھائی کا ساتھ دیتی ہیں یا پارٹی کا۔
27 مارچ کے دورے کے دوران میاں صاحب کا حیدرآباد کے عوام سے خطاب کا کوئی پروگرام نہیں ہے لیکن قاسم آباد کے ایک بینکوئیٹ میں چنیدہ چنیدہ افراد کے اجتماع سے خطاب کا پروگرام ہے۔ ابھی تک نہ تو مقامی انتظامیہ نے وزیراعظم کے دورہ حیدرآباد کا تفصیلی پروگرام جاری کیا ہے، نہ ہی مسلم لیگ کے ذرائع پروگرام کی تفصیلات دے رہے ہیں۔ امکان ہے کہ وزیراعظم چنیدہ چنیدہ افراد کے اس پروگرام میں حیدرآباد کے لیے روایتی ترقیاتی پیکج کا اعلان کرینگے جس کی مالیت اربوں میں ہو گی۔
حیدرآباد کے باسی ایسے اعلانات کی حقیقت خوب جانتے ہیں کہ مشرف دور میںدو مرتبہ ایسے پیکج کا اعلان ہو چکا ہے 2003ءمیں جب پرویز مشرف نے بلدیاتی نمائندوں سے خطاب میں حیدرآباد کے لیے دس ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا تو سب ہی خوشی سے جھوم اُٹھے کہ حیدرآباد پیرس نہ سہی ماضی کا حیدرآباد تو بن ہی جائے گا لیکن جب8 سے 10 ماہ تک اس اعلان پر کوئی کارروائی نہ ہوئی تو حیدرآباد سے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے اسمبلی میں سوال کرلیا جس کا جواب یوں ملا کہ ایسے اجتماعات کے اعلانات سیاسی ہوتے ہیں۔ اصل اور قابل عمل اعلان وہ ہوتا ہے جو اسمبلی فلور پر کیا جاتا ہے ،گویا عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنے جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس کذب کو ایک علم کا نام دے دیا جاتا ہے جبکہ میاں صاحب اسمبلی میں دیے گئے بیان کو بھی عدالت عظمیٰ میں سیاسی کذب پر مبنی قرار دے چکے ہیں گویا یہ اعلانات صرف اور صرف لولی پاپ ہی ہیں۔
میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں لیکن ان کے اس طرح سندھ کے دوروں سے پیپلز پارٹی میں خفگی پائی جاتی ہے جس کا اظہار پارٹی کے ہر سطح کے رہنما کر رہے ہیں۔ ٹھٹھہ کی شیزاری برادری کی جانب سے نوازشریف کے استقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے پی پی کے رہنماو¿ں نے انہیں مسترد کر دہ عناصر قرار دیا تو لوٹے اور بکاو¿ گھوڑے کا طعنہ بھی دیا گیا۔ شیزاری برادران ہی کیا اکثر سیاستدانوںکا کردار ایسا ہی ہے جس کی ایک مثال مگسی ہاو¿س بھی ہے جہاں ضیاءالحق سے لیکر نواز شریف تک تمام ہی آمر اور جمہوریت پسند تشریف لا چکے ہیں مگسی ہاو¿س پر کبھی پی پی، کبھی اےن پی پی ،کبھی پی پی (ش۔ب)،کبھی مسلم لیگ کا جھنڈا لہراتارہا ہے جب اللہ بخش مگسی حیاتتھے توانہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا اس وقت عرفان گل مگسی پی پی کے گن گاتے تھے۔ پھر پی پی میں(ش۔ب) کا اضافہ ہوا اور بعد میں مشرف کے ہاتھوں بیعت کا عمل مکمل ہوا۔ مشرف کے اقتدار سے محروم ہونے کے ساتھ ہی مسلم لیگ سے راہ و رسم بڑھائی گئی درمیان میں چوہدری شجاعت بھی پیرومرشد رہے اب ایک جانب مگسی ہاو¿س کے وارث عرفان گل ہیں جو پی پی کا ترنگا اُٹھائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب راحیلہ مگسی شیر کی میزبان رہی ہیں لیکن سارے عمل میں ایک امر تو مسلّم ہے کہ اقتدار کسی کا بھی ہو، اقتدار کے فیوض وبرکات سے مگسی ہاو¿س ہی سرفراز ہو گا۔
٭٭….٭٭