قربانی کا مقصد، قرب الہیٰ اور تقویٰ
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
انسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی اطاعت ہے جوتقرب الٰہی اور کیفیت تقویٰ کے بغیرممکن نہیں۔ اطاعت کیلئے قربانی ضروری ہے۔عیدالاضحی کا مقصدبھی جذبہ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیزترچیز کوحکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا یہی قربانی ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔ قربانی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو قدیم زمانے سے چلی آرہا ہے۔قرآن پاک میں ہے ”ہرامت کیلئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیاہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جواس نے ان کو بخشے ہیں۔”(الحج34)۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اسکے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور اس میں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس کا عزیز تربندہ ہوگا۔
ارشاد ربانی ہے: ”نہ اْن (قربانی کے جانوروں )کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔ ” (الحج37)۔اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مقصودان جانوروں کا خون یا ان کاگوشت نہیں بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کس قدر یقین رکھتے ہیں ؟اس کے احکام کی کس قدرپابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ِ ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیاررہتے ہیں ؟ تقویٰ کی صفت اللہ تعالیٰ کوبے حدمحبوب ہے ، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کوترجیح دے کرانھیں اختیا ر کرتاہے۔ اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ خالص ا للہ کیلئے ہوتاہے۔ اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصدقراردیاہے۔ اس طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ”اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتاہے”(المائدہ27)۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہے۔ تاجدار کائناتۖنے سنت ابراہیمی یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقوی پر زور دیتا ہے۔ قربانی اور تقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عید الاضحی کے روز ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جو رویائے صادقہ پر منشائے خداوندی سمجھتے ہوئے حضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے پیش کی تھی۔خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔دنیاوی اعتبار سے قربانی دینے میں بھی غریبوں کا فائد ہ ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قربانی کے اس عمل سے سال میں ایک بار انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ بہت سے غریب لوگ سال بھر جانوراسی ارادے سے پالتے ہیں کہ عید پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہو جائے گی۔ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے چارے اوردیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بہت سے مصارف ہیں۔ اس وجہ سے چمڑے کے کاروبار کو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیںفلاحی اداروں، مدارس اوردیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کا م آتی ہیں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ دسویں ذی الحجہ کو اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانوروں کا خون بہانا یعنی قربانی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عید قربان کا مطلب اللہ کی راہ میںجانور قربان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو دولت کی نمائش نظر آتی ہے۔ قربانی کا فلسفہ بھی ہمارے ایمان کاجرو ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے کا جانور خرید کر لوگوں میں اپنے دولت مند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ جوں جوں مہنگائی کا گراف بڑھتا جارہا ہے معاشرے میں دکھاوے اور خود نمائی کا گراف بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ غربت اور بدحالی ہی سمجھ آتی ہے۔ایک وہ دور بھی تھا جب لوگ سال بھر پہلے سے جانور کی اپنے گھروں میں پرورش کیا کرتے تھے اور پھر اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا کرتے تھے مگر اب ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اب جانوروں کے مقابلہ حسن کرائے جاتے اور جانوروں کی بولیاں لگوائی جاتیں ہیں اور جو سب سے زیادہ بولی لگاتا ہے وہ ہی سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار مسلمان قرار پاتا ہے۔ جس کی بولی سب سے زیادہ ہوتی ہے اس کی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس شخص کی تصویر شائع کی جاتی ہیں اس کے جانور کے ساتھ تاکہ لوگوں کو علم ہوسکے کہ اس شخص نے اس عید قربان پر لاکھوں کے جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کیا ہے۔
عیدالاضحی ہمارا مذہبی تہوار ہے اور اس کو پورے جذبہ ایمانی اور خلوص کے ساتھ منانا چاہیے لیکن ہمیں تو صرف اپنی خودنمائی سے ہی فرصت نہیں۔ اللہ کریم ہمارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں اکثریت غربت کی لیکر سے بھی نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ننھے ننھے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں بڑے روٹی کو ترس رہے ہیں اور ان کو صاف پانی تک میسر نہیں جو مکھی اور مچھر کی طرح مرجاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا بھی نہیں ان کو بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کیونکہ ان کا بھی خوشیوں پر حق ہے اور وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں اور ان کو بھی جینے کا حق ہے۔
٭٭٭