ٹی بی ( تپ دق)لا علاج مرض نہیں
شیئر کریں
ہرسال 24 مارچ کو ٹی بی (تپ دق) کے مرض سے آگاہی کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں میں اس بیماری سے بچنے سے متعلق شعور بیدار کرنا ، اور اس مرض کی علامات ، تشخیص اور علاج کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ٹی بی ایک متعدی مرض ہے جو ایک جرثومے مائیکو بیکٹیریم سے پیدا ہوتی ہے اور عام طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے ۔ یہ بیماری متاثرہ انسان سے دوسرے انسان میں کھانسنے ، تھوکنے اور چھینکنے سے منتقل ہوتی ہے، جبکہ لوگوں کا غیر معیاری طرز زندگی بھی اس بیماری کا موجب ہے۔ جراثیم سے آلودہ رہائش، حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف اور غیر معیاری اشیاءکھانے سے صحت کا معیار گر جاتا ہے اور یوں انسان اس موذی مرض میںمبتلا ہو جاتا ہے۔ مشقت کی زیادتی بھی ٹی بی کا سبب بنتی ہے۔ ٹی بی کا مرض غریب افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ تنگ و تاریک اور زیادہ گنجان آباد علاقے بھی اس کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان میں عورتوں میں ٹی بی کا مرض زیادہ ہے جبکہ پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مرد زیادہ مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی نسبت ٹی بی کے مریضوں میں مردوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی سے مریض کو دماغ اورہڈیوں کی بھی ٹی بی ہو سکتی ہے جبکہ ہڈیوں، جوڑوں، آنتوں کی ٹی بی سے پھیپھڑوں کی ٹی بی نہیں ہوتی۔ بچوں مےںجلد کی ٹی بی کی وجہ یہ ہے کہ اگر گھر میں کسی بزرگ اور بڑے کو پھیپھڑوں کی ٹی بی ہے تو جب وہ بچے کو پیار کرتا ہے اس کا ہاتھ یا منہ چومتا ہے تو ٹی بی کے جراثیم جلد پر لگ جاتے ہیں اس سے بچوں میں جلد کی ٹی بی ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جلد کی ٹی بی میں جلد پر زخم بن جاتے ہیں۔ اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ جلد کی ٹی بی ہے یا کوئی اور جلد کی بیماری ہے۔ اگر لیبارٹری میں جلد کی ٹی بی کی ر پورٹ آئے تو فوراً گھر کے تمام لوگوں کی ٹی بی کے مرض کی تشخیص کروانی چاہیے۔
ٹی بی( تپ دق) کی عام علامات میں شام کے وقت ہلکا ہلکا بخار رہنے لگتا ہے اورپورے جسم میں خصوصاً سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ رات کوٹھنڈے پسینے آتے ہیں اور بعض اوقات کپکپی بھی طاری ہو جاتی ہے۔ شدید کمزوری کے ساتھ وزن میں بھی کمی ہو جاتی ہے، بلغم میں خون آتا ہے۔ اس مہلک مرض اور اس کے علاج سے آگاہی نہ ہونے کے سبب ہر سال لاکھوں افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ یہ مرض قابل علاج ہے۔ حکومت پاکستان اس مرض کے علاج و معالجہ کی سہولت مفت مہیا کر رہی ہے۔ ٹی بی کے مریضوں کی دو اقسام ہیں، ایک وہ مریض جن میں ٹی بی کی انفیکشن ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم ٹی بی کے مریضوں کی وہ ہے جن کے منہ میں ٹی بی جراثیم ہوتا ہے۔ ان کو ہم SMEAR POSITIVEٹی بی کہتے ہیں۔ جو کہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ ایسے ٹی بی کے مریض جن کے منہ میں ٹی بی کا جراثیم آتے ہےں ان کے سانس لینے، کھانسنے سے دوسروں کو ٹی بی کا مرض لگ سکتا ہے۔ ٹی بی کی دوسری قسم وہ ہے جس میں مریض میں وہ ساری علامتیں مثلاً کھانسی، بخار اور بلغم بھی آ رہی ہوتی ہے مگر خوش قسمتی سے اس مریض کے منہ میں جراثیم نہیں آ رہے ہوتے ہیں۔ اےسی ٹی بی کے مریضوں سے دوسروں کو ٹی بی کا مرض نہیں لگتا اس کی تشخیص کر کے ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔ ٹی بی کی بیماری میں ایک ٹی بی کی بیماری ملٹی ڈرگ ریزسٹنس (MDR)ہے۔ اس بیماری کے مریضوں پر ٹی بی کی عام ادویات اثر نہیں کرتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی بی کے کچھ جراثیم اتنے خطرناک ہوتے ہیں جن پر یہ دوائیاں اثر نہیں کرتیں۔
ٹی بی ( تپ دق ) کے بڑھتے ہوئے مریضوں کے پیش نظر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے 1994 ءمےں گلوبل ایمرجنسی ،اور منسٹری آف ہےلتھ نے پاکستان مےں24 مارچ 2001ءمےں قرار دےاکہ ٹی بی کے مریضوں کا علاج ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔ اس کے بعد دنیا کے تمام ممالک کے ہسپتالوں میں ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص اور علاج کا سلسلہ تیزی سے شروع کیا گیا۔ آج پورے پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کے علاج کی سہولت موجود وہے ۔ٹی بی پروگرام کے تحت یہ کام ملک کے کونے کونے میں کیا جا رہا ہے۔ ٹی بی کے مرض کی تشخیص سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ہر قسم کی ٹی بی کا مریض موجود ہے۔ ٹی بی کنٹرول پروگرام ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے علاج‘ تشخیص اور ادویات کی مفت فراہمی میں مدد کر رہا ہے۔ اس کا 2050ءتک پاکستان کو ٹی بی سے پاک کرنے کا ٹارگٹ ہے۔ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے یہاں ٹی بی کے مریضوں میں HIV (ایڈز) بہت کم ہے۔ ایڈز کی وجہ سے ٹی بی میں پیچیدگیاں باقی ممالک کی نسبت پاکستان میں بہت کم ہیں۔ پاکستان ”ٹی بی ڈاٹ“ (T.B Dot) پروگرام کے تحت ٹی بی کا علاج صرف چھ سے آٹھ ماہ میں مکمل کروایا جاتا ہے۔ علاج کے دوران مریض کو اچھی خوراک مثلاً دودھ‘ انڈے‘ مچھلی ‘ گوشت اور پھل وغیرہ دینا چاہیے۔
٭٭….٭٭