یہی ہماری سیاست ہے!
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی کا جو بندہ بھی پکڑا جاتا ہے وہ رہائی کے فوری بعد پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کردیتا ہے۔ تاکہ وہ اور انکی فیملی پھر کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کے تقریبا تمام قابل ذکر لیڈر پارٹی چھوڑ کر توبہ تائب ہو رہے کچھ نے تو سیاست سے ہی توبہ کرلی ہے۔ ان میں سے اکثر وہ افراد ہیں جو ہر اقتدار کا حصہ رہے ہیں اور ان کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں جنہیں اقتدار میں لانا مقصود ہوتا ہے۔ یہی افراد اسی پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک اس پارٹی کا حصہ رہتے ہیں جب تک وہ پارٹی بیساکھیوں پر ہوتی ہے جیسے ہی پارٹی مضبوط ہونے لگتی ہے اور پارٹی سربراہ عوام میں مقبول ہو جاتا ہے تو پھر اس کے خاتمے کے لیے وہی قوتیں متحرک ہو جاتی ہیں جنہوں نے اسے بنایا ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ،بینظیر بھٹو ،میاں نواز شریف اور اب عمران خان کیونکہ یہ سب لیڈر عوام میں اتنے مقبول ہوچکے تھے کہ اگر وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آجاتے تو پھر بیرونی اور اندرونی آقائوں کی نہیں چلنی تھی ،اس لیے ان افراد کو اقتدار سے نہ صرف الگ کردیا جاتا ہے بلکہ انہیں نشان عبرت بھی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بات بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جب تک بیرونی اور اندرونی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل نہ کی جائے اس وقت تک کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں نہیں آسکتی جو پارٹی اس ڈیل کے ذریعے اقتدار میں آجاتی ہے پھر وہ عوام کے مسائل سے بھی لاعلم ہو جاتی ہے۔ اس وقت پی ڈی ایم کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔یہی گیارہ پارٹیاں جو اس وقت اقتدار میں ہیں ،جب اپوزیشن میں تھیں تو انہیں دن کو چین تھا نہ رات کو آرام کیونکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی تھی۔ انہوں نے مہنگائی کی آڑ میں کبھی دھرنے دیے تو کبھی احتجاج پر احتجاج کیا دن رات عوام کی باتیں کرکر کے ان کے آنسو خشک ہو چکے تھے کوئی ٹی وی چینل ایسا نہیں تھا جہاں مہنگائی پر سروے نہ دکھائے جاتے تھے اور تو اور ہر ہفتے مہنگائی کا پچھلے ہفتے سے موازنہ کیا جاتا تھا اور حکومت کو دھیروں گالیاں پڑ رہی تھی خوش قسمتی سے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اپنے آقائوں سے ڈیل ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے جب عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو اس وقت عوام بھی مہنگائی سے تنگ تھی اور کوئی خاص احتجاج بھی نہیں ہوا اوران سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اسی وقت عمران خان کو اندر بھی نہیں کیا وقت گزرتا گیا ۔مہنگائی آسمان سے باتیںکرنے لگی عوام کا جینا مشکل ہوتا گیا وارداتیںبڑھتی گئی اور بے روزگاری سے تنگ آکر افراد نے اپنے بچوں کے ساتھ اجتماعی خود کشیاں شروع کردی اور عمران خان نے جلسے جلوس کی ابتدا کردی۔ حکومت کو شدید تنقید کا کا نشانہ بنانا شروع کردیا تو پھر اقتداری پارٹیوں نے عوام کی توجہ ایدھر اودھر کرنے کے لیے عمران خان پر سیاسی حملے شروع کردیے۔ مقدمات کا اندارج شروع ہوگیا۔صحافیوں بھی رگڑے میں آگئے اور پھر اسی دوران عمران خان کے ساتھ موجود کچھ افراد نے ایک اور گیم شروع کردی۔ چوہدری پرویز الہٰی ا سپیکر پنجاب اسمبلی تھے۔ انہوں نے وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کے لیے کچھ ن لیگی ساتھیوں کے ذریعے تحریک عدم اعتماد پیش کروا دی۔ اس بات کا ذکر خود بعد میں ن لیگی اراکین اسمبلی نے بھی کیا اس تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب میں ایک نئی گیم شروع ہوگئی۔ چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی
نے انہیں وزارت اعلی کی پیش کش کردی۔ ن لیگ حمزہ شہباز پر اٹک گئی اور پھر آخر کار چوہدری پرویز الہٰی نے جو چال چلی تھی اس میں وہ کامیاب ہوگئے وزیراعلیٰ بن گئے ۔جس کے بعد عمران خان نے اپنے دو اسملیاں خیبر پختون خواہ اور پنجاب توڑ دی یہ بھی عمران خان کی بڑی غلطی تھی کہ وہ پھر اشاروں پر ناچنے لگے، جب اسمبلیاں توٹ گئی تو پھر حقیقی معنوں میں پی ڈی ایم نے عمران خان کو تگنی کا ناچ نچانا شروع کردیا ۔
نواز شریف ،آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمن اور رانا ثناء اللہ خان کھل کر میدان میں آگئے رانا ثناء اللہ جن پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ،عمران خان اسی بیانیہ پر عوام میں ایک بار پھر مقبول ہوچکے تھے جو پہلے پی ڈی ایم ہو تا تھا اور یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا تھا پھر اسکے بعد جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو عوام کا حتجاج سامنے آیا۔ کچھ شر پسندوں نے قومی اداروں کو نقصان پہنچایا جو ایک خطرناک صورتحال اختیار کرگیا۔ اب جن لوگوں کو اس بات پر تکلیف ہورہی ہے کہ اس دہشت گردی میں ملوث افراد کو پکڑا جارہا ہے۔ اگر یہی افراد اس دن سیکیورٹی فورسز کی گولیاں کا نشانہ بن جاتے تو پھر ملک کے حالات کیا ہوتے اور یہی وہ لوگ چاہتے تھے جنہوں نے عوام کو اس طرف روانہ کیا۔ احتجاج پر امن بھی ہوسکتا تھا ،پہلے بھی تو پی ٹی آئی نے کئی بار دھرنہ دیا تھا ،لیکن اس بار جو ہوا وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ باعث شرم بھی ہے اس وقعہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اور پھر پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جو افراد پی ٹی آئی میں لائے گئے تھے۔ انہیں معافی نامہ کے بعد واپس بلالیا گیا جسکے بعد کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ آصف علی زرداری ،میاں نواز شریف،میاں شباز شریف ، حمزہ شہباز،شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف ،احسن اقبال ،کیپٹن صفدر ،خواجہ سعد رفیق ،رانا ثناء اللہ،فریال تالپور ،مفتاح اسماعیل ،کامران مائیکل اورحنیف عباسی سمیت متعدد جیالوں اور ن لیگی ورکروں نے جیل کاٹی لیکن کوئی رویا نہیںکسی ایک نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیاان سب لوگوں نے پارٹیاں اس لیے نہیںچھوڑی کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی جیل میں بھی یہ لوگ پکنک مناتے تھے۔ آئے روز بار بی کیو پارٹیاں ہوتی تھیں اور جو حشر پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ہوا اسکی مثال شہباز گل کی صورت میں سامنے موجود ہے جس کے بعد پارٹی چھوڑنا تو معمولی بات ہے۔ انسان سیاست سے توبہ تائب ہوجاتا ہے یہی ہماری پولیس کا کلچر ہے ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں بھی پولیس کے ذریعے ایسی ہی سیاست ہوتی ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کروا کر اسے سبق سکھا دیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری عمر تابعداری میں گزارتا ہے۔ یہی ہماری سیاست ہے جس سے آج تک باہر نہیں نکل سکے آج بھی اگر ساری سیاسی پارٹیاں چوراور ڈاکو کا نعرہ ختم کرکے متحد ہو جائیں تو پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر بدل سکتی جو ناممکن نہیں ۔