عمران خان تنہاہوگئے ؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھی گرفتاریوں کے بعد رہائی کی صورت میں ان سے علیحدہ ہورہے ہیں، حال ہی میں ڈاکٹر شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی ایک مرتبہ ضمانت پر رہائی ہوئی ۔انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ دوسری مرتبہ رہائی ملی۔ تب بھی عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ انہیں تیسری مرتبہ رہائی ملی اس وقت جب وہ ہاتھ اٹھا کر کامیابی کا نشانہ بنارہی تھیں تو ان کی بیٹی نے ان کا ہاتھ پکڑکر نیچے کرلیا وہ پھر گرفتا ر ہوگئیںجب وہ چوتھی مرتبہ گرفتار ہوئیں تو اطلاع آئی کہ وہ پارٹی چھوڑ رہی ہیں۔ انہوں نے ایک مختصر پریس کانفرنس کی اور اس موقع پر ایک کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر سنائی کہ وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہورہی ہیں۔ اورسیاست سے ہی دستبردار ہورہی ہیں ۔ وہ خود بیمار ہیں والدہ کی دیکھ بھال کرنی ہے اور بچوں کا خیال رکھنا ہے یہی ان کی ترجیح ہے۔ یہ مختصر گفتگوموجودہ حالات کی عکّاسی تھی اور اتنی اثر انگیز تھی کہ یہ عرصہ دراز تک یاد رکھی جائے گی ۔
اسی طرح روزانہ کسی نہ کسی پی ٹی آئی کے رہنما کی علیحدگی کی اطلاع آرہی ہے عمران خان کے ساتھی یا تو روپوش ہیں یا گرفتار ہیں۔ اس لیے عملاً وہ تنہا ہو چکے ہیں۔عمران خان کہتے ہیںکہ وہ اکیلے بھی رہ گئے تو اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ 9 مئی کے واقعات ایک خاص منصوبہ بندی کا نتیجہ تھے۔ ان کی یہ بات کہاں تک درست ہو سکتی ہے یہ بات آئندہ دنوں میں واضح ہوسکتی ہے لیکن یہ درست ہے کہ9مئی کو ا سلام آباد ہائی کورٹ میںرینجرز کے ذریعے گرفتاری کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والے ہنگاموں کے بعد تحریک انصاف کے خلاف جاری غیر اعلانیہ پابندیوں اور آپریشن کی وجہ سے موجودہ حالات میں تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ان کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بعض اطلاعات کے مطابق تقریباً آٹھ سے دس ہزارکارکن گرفتار کیے گئے ہیں جس میں سیکڑوں خواتین بھی شامل ہیں۔بے شمار کارکن زیرزمین ہیں یا ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی تیاری جاری ہے۔ عمران خان اوران کے ساتھیوں کو دہشت گرد قرار دینے کے امکانات غالب ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے یہ معلومات حاصل کی جارہی ہیں کہ جس علاقے میں ہنگامے ہو رہے تھے وہاںکون کون سے موبائل فون موجود تھے۔ اس طرح تقریباً پینتالیس ہزار افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ ان میں سے کتنے افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ میڈیا میں ان تمام لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس وقت تقریباً 35 ہزار دہشت گردوں کی تلاش جاری ہے۔ اس طرح کی خبروں اور بیانات میں احتیاط ضروری ہے ۔ اس کے بیرونی دنیا پر منفی اثرات ہونگے اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔
ملک میں پہلے سے جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ مہنگائی سے انتہائی پریشان اور تنگ ہیں۔غریبوں کے لیے گزارہ مشکل ہے۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے اس طرح کے بیانات کی تشہیر سے اس بحران میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ میں چالیس دہشت گردوں کی روپوشی کی خبروں سے بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بیانات کا سلسلہ اب بھی برقرارہے۔ تحریک انصاف کے لیے انتہائی مشکلات کا وقت ہے۔ اس وقت ان کی حیثیت ایک کا لعدم جماعت کی ہے۔ کسی سیاسی سرگرمی کے لیے ان کا کوئی کارکن میدان میں نہیں آسکتا ہے۔ پاکستان کے تقریباًتمام ٹی وی چینل عمران خان اور ان ساتھیوں کو دہشت گرد قرار دینے اور ان پر لعنت و ملامت کے بیانات کی بھر پور تشہیر کررہے ہیں۔ میدان خالی دیکھ کرجماعت اسلامی نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں جو کراچی میںاپنا میئر لانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے لیے انہیں زیر عتاب تحریک انصاف کے کونسلرز اور چیئر مینوں کے ووٹ درکار ہیں، جنہیں حلف اٹھانے سے پہلے یا بعد میں گرفتا ر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی ممکنہ کامیابی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی کی کامیابی کی صورت میں حافظ نعیم اگلے مرحلے میں بھی پیش قدمی کر سکتے ہیں ملک بھر میں کمزور ہوتی ہوئی مسلم لیگ ن کے علاوہ گرفتاریوںاور پابندیوں کے عتاب کی شکار تحریک انصاف سے ایک خلا پید اہوسکتاہے۔ جماعت اسلامی اس ممکنہ خلا کو پر کرنے کے لیے زور لگارہی ہے ۔جماعت اسلامی ،تحریک لبیک اور پی پی پنجاب پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب جہانگیر ترین ان لوگوں کو ساتھ ملانا چاہتے ہیں جو جدّی پشتی سیاستدان ہیں اور اپنا ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ تحریک لبیک بھی حالات سے فائدہ حاصل کرکے اپنی پارلیمانی پوزیشن حاصل کر سکتی ہے ۔قومی اور صوبائی اسمبلی میں وہ بھی حصہ دار بننے کی کوشش کرے گی۔ تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتیں فوجی عدالتوں کا سہارا لے کر سیاست کر رہی ہیں اور سیا سی عمل کے بجائے فوجی عدالتوں کے ذریعے تحریک انصاف کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بظاہر حالات پر امن نظر آرہے ہیں لیکن ایک طویل عرصے تک ان حالات کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہوگا۔ دوسری مرتبہ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے کئی رہنما اپنی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہوں گے جس کا سلسلہ جاری ہے۔ آنے والے دنوں میں اعلی عدالتیں بھی موجودہ انتظامیہ کے سامنے بے بس دکھائی دیں گی جس کے واضح آثا ر حکومت عدالتی احکامات کو نظر انداز کررہی ہے۔ اصل سیاسی ٹکرائو عدالت کے اس حکم کی وجہ سے ہوا تھا کہ 14مئی کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتابات کرائے جائیں جس پر عمل درآمد نہیں کرایا گیا۔ اب عدالتیں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنمائوں کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہے اورپو لیس انہیں دوبارہ گرفتار کرکے لے جاتی ہے۔ بعض غیر مصدّقہ اطلاعات کے مطابق اعلیٰ عہدیداروں کو 9مئی کے واقعات کے بارے میں صحیح رپورٹ نہیں دی گئی تھی۔ اب ایک اور رپورٹ دی گئی ہے جس میں ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جس میں سول حکومت کے لیے شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بعض سول ادارے اور اعلیٰ عہدیدار ذمّہ دار قرار دیے جارہے ہیں ۔اگر یہ اطلاع درست ثابت ہوتی ہے ۔اعلیٰ سطح پر اسے تسلیم کرلیا جاتا ہے تو ممکنہ طور پر توڑ پھوڑ میں ملوّث چند لوگوں کے سو ا پی ٹی آئی کے بیشتر کارکنوں اور رہنمائو ںکو جلدرہا کردیا جائے گا جس سے ملک میں صورت حال تبدیل ہوجا ئے گی۔ اس طرح کی اطلاع لندن برطانیہ سے ایک صاحب نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعے دی ہے فی الحال عمران خان مشکل سے دوچارہیںاورسیاسی تنہائی کا شکار ہیں ان کے مخالفین خوشی سے جھوم رہے ہیں۔ عوام کے لیے مسائل میں کوئی کمی نہیں ہورہی ہے جو مسلسل معاشی بحران سے شدید پریشانی اور ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کر ہے ہیں۔