استحکام ،خانہ جنگی یا مارشل لاء ؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
عمران خان کی گرفتاری کے بعد کے واقعات سے پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران مزید گہرا ،پیچیدہ اور شدید تر ہوگیا ہے ۔دنیا کے اہم ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے بھی اس گرفتاری کے خلاف بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں ۔ اس گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے حالات و واقعات کے دور رس اور طویل ا لمدت اثرات سے باہر آنا بہت مشکل ہے۔ معاشی بحران سے بھی نکلنے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے۔ سیاسی قوتیں اور طاقتور حلقے سمجھوتے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ملک کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور طاقت کے استعمال کے ذریعے اسے اقتدار سے باہر رکھنے کے اقدامات سے مزید کشیدگی اور بڑے تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی سے بیزار غریب عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں سیاسی قوتوں اور مقتدر حلقوں میں سمجھوتے کے بغیر استحکام نا ممکن ہے ۔موجودہ کیفیت کے برقرار رہنے کی صورت میں بڑی خانہ جنگی اور مارشل لاء کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جس سے ملک پسماندگی کے بد ترین عذاب میں مبتلا ہوگا ایک طرف پاکستان کا اندرونی خلفشار ہے ، دوسری جانب دنیا بھر کے اکثر ممالک جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ حاصل کرنے اور تیز رفتاری سے معاشی ترقی کی جانب گامزن ہیں۔سعودی عرب میں دنیاکا جدید ترین اور عہد رفتہ کی ٹیکنالوجی سے آراستہ شہر کی تیاری جاری ہے جو ماحول دوست بھی ہوگا۔ متحدہ عرب امارات نے 8.7 کھرب ڈالر کے معاشی منصوبے کا اعلان کردیا ہے جس میں سرمایہ کاری اور تجارت کوفروغ دینا اور عالمی مرکز بننا شامل ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق تیزی سے ترقی کرنے والے ایشیائی ممالک میں چین،فلپائن،ملیشیا،کمبودیا،میانمار ،بھوٹان،نیپال اورقزاکستان شامل ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی معیشت بھی تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں جب مواصلات،اطلاعات اور علم وآگہی کا دور دورہ ہے۔ بیشتر سوالات کا جواب انٹرنیٹ سے چند لمحوں میں حاصل کیاجاسکتاہے ۔فی زمانہ ملکی ترقی و خوشحالی کے اہم لوازمات اور طریقہ کار کے بارے میں معلومات کا خزانہ عام ہے ۔مثال کے طورپر امریکن ڈریم پراسپیریٹی انڈیکس کے مطابقـ ’’ کسی بھی معاشرے کی خوش حالی کے لیے لازمی ہے کہ اول اس کے ادارے موثر ہوں دوئم معیشت کھلی اور آزاد ہو۔سوئم عوام با اختیار ، صحت مند اور خواندہ ہوں ‘‘۔
اس سادہ سے فارمولے پر عمل کرکے کوئی بھی ملک ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکتاہے اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے سیاسی محققین سے حاصل کردہ معلومات اور مختلف ممالک مملک کے طرز حکمرانی کے جائزے کے بعد خوشحالی اور ترقی کے اہم جز ٓٓاچھی حکمرانی ((Good governanceبارے میں ایک رپورٹ تیارکی ہے جس پر عمل کرکے ترقی اور خوشحالی کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے جس میں فیصلہ سازی میں عوامی شراکت یعنی شفاف انتخابی عمل،اظہار رائے،اجتماع ،تنظیم سازی کی آزادی،قانون کی حکمرانی، معاشرے کے طبقات میں یک جہتی،مساوات،بہتر کارکردگی پر مشتمل ادارے،احتساب کا عمل،آزاد میڈیامنصفانہ آزادانہ معاشی سرگرمیاں شامل ہیں۔ یہ رپورٹ بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اس سادہ فارمولے کو کیوں لاگو نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ بنیادی وجہ مقتدر اشرافیہ کے طاقتور افراد کی جانب سے ذاتی مفادات کو ترجیح دینا اور اجتماعی مفاد کو نظر انداز کرناہے۔ حالیہ پاکستان اس کی واضح تصویر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران اسے تیزی سے کسی بڑی خانہ جنگی یاعوامی انقلاب کی طرف دھکیل رہا ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعتیںانتخابات سے اس لیے گریز کر رہی ہیں کہ انہیں اس میں شکست فاش نظر آرہی ہے۔ انتخابات سے دور بھاگنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعتیں عوامی میندیٹ سے محروم ہورہی ہیں۔یہ بحران پاکستان کو مزید تباہی،خانہ جنگی، عوامی انقلاب یا مارشل لاء کی طرف دھکیل سکتاہے جو مزید معاشی پسماندگی ، غربت ،دولت کے زیاں ا ور ریاست کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے ،جس کے اثرات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔غالب امکان ہے کہ اس خدشے کے پیش نظر دنیا کے اہم ممالک پاکستان کی مقتدر شخصیات کو پاکستان میں استحکام لانے کا مشورہ دے رہے ہوں گے۔
بر سراقتدار سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ مسلسل عوام میں غیر مقبول ہورہی ہیںاور ملک کے طاقتور ادرے کے سہارے اپنے اقتدار کو غیر معیّنہ مدت تک طول دینا چاہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ بلاول بھٹو کو جلد وزیر اعظم بنایا جائے جس کے لیے گرین سگنل مل چکا ہے اور پس پردہ قوتیں اس پر کام کرسکتی ہیں ۔پاکستان کے ممتاز ٹی وی مبصرین کی ٹیم بھی شاید اس سلسلے میں سرگرم ہے ممکنہ طور پر کراچی میںمصطفیٰ کمال کے لیے بھی میدان تیار ہورہا ہے جنہیں پردہ نشینوںسے مدد مل رہی ہے۔ فی الحال متحدہ قومی مومنٹ پی ڈی ایم کا حصہ ہے لیکن کراچی پر مضبوط گرفت کے لیے پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کی مدد انہیں پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری سے ہی مل سکتی ہے۔ حکومت کے موجودہ اقدامات سے ایک طویل مدت سیا سی لڑائی کا آغاز ہو چکا ہے جو ایک رکاوٹ ہے موجودہ سیاسی لڑائی کا یہ طوفان اگر دبابھی دیا گیا تو کچھ عرصے بعد مزید شدت سے سامنے آجائے گا۔ خیالات کو دبایا جا سکتاہے انہیں زنجیریں پہنائی جاسکتی ہیں لیکن یہ مٹ نہیں جاتے قید نہیں ہوتے ۔کسی اور روپ میں مزید پھیلنے لگتے ہیںان پر قابو پانا ناممکن ہے۔ سنجیدگی اور فہم وفراست سے کام نہ لیا گیا تو کسی بہت بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔ کم از کم اپنی جغرافیائی صورت حال اور محل وقوع کا خیال کیے بغیر سیاسی لڑائی کا فیصلہ ملک کو کہاں لے جائے گا اس بارے میںہی غور کر لیا جاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے ۔
ایک خیال کے مطابق پاکستان میں ہونے والی موجودہ حکومتی کارروائیاں لندن میں طے ہوئی تھیں خود تحریک انصاف میں یہ خدشات پائے جاتے تھے کہ عمران خان کی گرفتاری اور پی ٹی آئی کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار ہوچکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد انتہائی بھونڈے انداز سے کیا جا رہا ہے۔ اگلا مرحلہ نواز شریف کی واپسی کاہے مزید قومی اسمبلی کے اراکین کو موجودہ حکومت کے ساتھ ملانا اور دوتہائی اکثریت کے ذریعے لا محدود اختیارات کا حصول بھی اس میں امکانی طور پر شامل ہے۔ اس پر عمل درآمد اور عوام کی حمایت کے لیے قیمتیں کم کرنا ہونگیں۔ پٹرول 150اور ڈالر175 تک لانا ہوگاجس کی کے لیے سیاسی لڑائی بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔سیاسی جماعتوں کے خلاف آپریشن میں پیپلز پارٹی کے خلاف مرحوم صدر ضیاء ا لحق نے گیارہ سال آپریشن کیا اور مسلم لیگ ن کو پروان چڑھایا مسلم لیگ ن کو موجودہ اقتدار نے شدید نقصان پہنچایا ہے ۔کراچی میں ایم کیو ایم کو میدان میں لایا گیا 1992 سے1998تک ایم کیوایم آپریشن کی زد میں آئی 2013سے 2018تک دوبارہ خاموش کارروائی کا نشانہ بنی۔ ایک بڑی غلطی نہ کرتی تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا۔ تحریک انصاف کے لیے بڑے عرصے کے اقدامات اس معاشی بحران میں بہت بھاری ہوںگے۔
٭٭٭